Maktaba Wahhabi

269 - 1201
کا انتخاب کرتے اور رکھتے ہیں، لہٰذا آج کے شیعہ حضرات کو میں دعوت دیتا ہوں کہ صاف دل ہوکر علی، حسن، حسین رضی اللہ عنہم اور اہل بیت کے دیگر ائمہ کا طرز عمل اپنائیں، اور اپنے بچوں وبچیوں کا نام خلفائے راشدین اور امہات المومنین کے نام پر رکھیں، ہم ان سے یہی توقع کرتے ہیں۔[1] 6: اللّٰہ تعاليٰ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو حسین بن علي بن ابي طالب رضی اللہ عنہما کي نسل کي بقا کا ذریعہ بنایا: سیّدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فارس کو فتح کیا تو اس کے اموال غنیمت میں سے شاہ فارس یزد گرد کی بیٹی کو حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو دے دیا اور اسی کے بطن سے آپ کے بیٹے زین العابدین علی بن حسین پیدا ہوئے، آپ کے تمام بیٹے آپ کے ساتھ شہید ہوگئے ان میں تنہا یہی بچے تھے اور انھیں سے حسین رضی اللہ عنہ کی نسل آگے بڑھی اور انھیں کی طرف نسبت کی جانے لگی۔ [2] لہٰذا جو لوگ خود کو حسینی نسل قرار دیتے ہیں اور عمر رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہتے ہیں وہ ہوش میں رہیں، کیونکہ اگر اللہ کی توفیق سے عمر رضی اللہ عنہ نے ایسانہ کیا ہوتا تو شاید آج اس بابرکت خاندان کا کوئی وجود نہ رہتا۔[3] اسی طرح عمر رضی اللہ عنہ ہی نے اس کی بہن کو محمد بن ابوبکر کے نکاح میں دے دیا تھا، جو کہ حسین رضی اللہ عنہ کے ہم زلف ٹھہرے، اسی کے بطن سے ان کے بیٹے قاسم بن محمد بن ابوبکر پیدا ہوئے، اس طرح قاسم بن محمد بن ابوبکر، اور علی زین العابدین بن حسین بن علی دونوں خالہ زادبھائی ہوئے۔ [4] 7: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کي تعریف میں عبداللّٰہ بن حسن بن علي بن ابي طالب کا قول: حفص بن قیس کا بیا ن ہے کہ میں نے عبداللہ بن حسن سے موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں فتویٰ پوچھا، تو انھوں نے کہا: مسح کرو، کیونکہ عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے بھی مسح کیا ہے۔ میں نے کہا: میں آپ سے یہ پوچھتا ہوں کہ آپ مسح کرتے ہیں یا نہیں؟ انھوں نے کہا: تمھاری سمجھ میں بات آنے والی نہیں، میں تمھیں عمر رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے بتارہا ہوں اور تم اس میں میری رائے پوچھتے ہو، عمر رضی اللہ عنہ صرف مجھ سے نہیں بلکہ اپنے وقت میں پوری روئے زمین میں سب سے بہتر تھے۔ میں نے کہا: اے ابو محمد !کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آپ لوگ تقیہ کے طور سے ایسا کہتے ہیں، راوی کا بیان ہے کہ انھوں نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا جب کہ ہم دونوں قبر نبوی اور منبر نبوی کے درمیان بیٹھے تھے۔ اے اللہ! ظاہر و باطن دونوں حالتوں میں میر ی یہی بات ہے، میرے بعد کسی کی بات میرے خلاف نہ سننا، پھر کہنے لگے، کون کہتا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ مظلوم تھے اورا للہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ایک کام (خلافت لینے) کا حکم دیا تھا، لیکن انھوں نے اسے نہیں کیا ؟ علی رضی اللہ عنہ پر طعن تشنیع کرنے اور ان کی عظمت کو مجروح کرنے کے لیے یہی کافی ہے کہ گمان کیا جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ایک بات کا حکم دیا تھا جسے انھوں نے نہیں کیا۔ [5]
Flag Counter