Maktaba Wahhabi

619 - 1201
اندھے اور سرکش ہو جائیں گے: لَوْ أَنَّ قَوْمِيْ طَاوَعَتْنِيْ سَرَاتُہُمْ أَمَرْ تُہُمْ أَمَراً یُدِیْخُ الْأَعَادِیَا[1] ’’کاش کہ میری قوم کے سرکردہ وبا اثر لوگ میری بات مان لیتے، تو میں انھیں ایسا حکم دیتا جو دشمنوں کو اپنے تابع بنا کر رہتا۔‘‘ علی و طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم کی مذکورہ گفت وشنید سے صاف طور سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اس وقت تک علی، طلحہ، زبیر اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم ، امت مسلمہ میں انتشار ڈالنے والی قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کی جماعت پر نفاذ قصاص کے لیے بالکل متفق ومتحداور باہم متعاون تھے تاکہ ان کے فساد سے پورا دین متاثر نہ ہو۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے یہ موقف بالکل منطقی تھا اور صحابۂ کرام بھی آپ کی رائے سے متفق تھے لیکن یہ شورش پسندجنھوں نے کلیدی کردار کو اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا اور مدینہ کے غلاموں اور پاس پڑوس کے بدوؤں کو وہاں کے باشندوں سے لڑائی پر ابھار چکے تھے اور انھیں جس طرح چاہتے برا بھلا کہتے، پھر کسی میں ان سے قتال کی طاقت نہ تھی، ان سے کیسے نمٹا جائے، اسی طریقہ کار میں اختلاف تھا۔[2] چنانچہ علی رضی اللہ عنہ کو سبائیت کے نرغہ سے نکالنے اور ان سے مقابلہ کرنے کے لیے طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما نے آپ کو ایک مشورہ دیا۔ سیّدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’آپ اجازت دیں تو میں بصرہ جاؤں اور قبل اس کے کہ یہ لوگ آپ کے خلاف کوئی تخریبی کارروائی کریں میں شہ سواروں کی ایک جماعت لے کر حاضر ہوتاہوں‘‘ اور زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’مجھے کوفہ جانے دیجیے، قبل اس کے کہ یہ لوگ آپ کے خلاف اچانک کوئی غلط اقدام کریں میں شہ سواروں کا ایک قافلہ لے کر حاضر ہوتا ہوں۔[3] لیکن سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اسے ٹالتے رہے اور ان دونوں سے کہتے: ’’ٹھہرو! یہاں تک کہ میں اچھی طرح حالات کا جائزہ لے لوں۔‘‘[4] شاید علی رضی اللہ عنہ کو اس فتنہ کے بارے میں یہ خدشہ تھا کہ کہیں مدینہ کے اندر خانہ جنگی نہ شروع ہوجائے جس کا انجام بہرحال اچھا نہیں ہے اور اسی لیے آپ نے طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما کا مشورہ نہیں مانا۔[5] طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما کے مشورہ کی نوعیت اس بات کی دلیل ہے کہ اس وقت وہ دونوں علی رضی اللہ عنہ کی بات سے مطمئن تھے، انھیں اتفاق تھاکہ یقینا شورش پسند لوگ مسلمانوں کی صف میں پوری قوت کے ساتھ گھس چکے ہیں، وہ مسلمانون پر قابو پا چکے ہیں، نہ کہ مسلمان ان پر۔ پس ان دونوں کا مطالبہ اس بات کی کوشش تھی کہ ایک شرعی حد کے تعطل کی مدت کم سے کم ہو اور علی رضی اللہ عنہ کے دست وبازو کو اس قدر مضبوط کردیا جائے کہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ پر آپ حد قصاص نافذ کرسکیں اور بقیہ صحابہ منتظر تھے کہ دیکھیں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کیا اقدام کرتے ہیں، لیکن علی رضی اللہ عنہ کا خیال یہ تھا کہ موجودہ ناگفتہ بہ حالات
Flag Counter