Maktaba Wahhabi

920 - 1201
اور مارکس وغیرہ۔ لہٰذاجو شخص ان جیسے کافروں کی تکفیر نہ کرے وہ انھیں کی طرح کافر ہے۔ رہا وہ شخص جس کی حقیقت مخفی ہے مثلاً بظاہر مسلمان ہے لیکن باطن میں کفر کو چھپاتا اور اسلام سے نفرت کرتا ہے، تو اس شخص کے مصاحبین اور مخصوص مجالس میں شریک ہونے والے لوگوں میں سے اگر کوئی شخص اس کی حقیقت کو معلوم کرلیتا ہے اور اسے یقین ہو جاتا ہے کہ اس کے اندر کافرکہے جانے کی تمام شرائط موجود اور موانع معدوم ہیں تو حقیقت حال سے واقفیت کار کو اِس شخص کے بارے میں کفر کا عقیدہ رکھنا واجب ہے اور جو اس کی حقیقت نہ جان سکا اور مسلمان کہتا اور جانتا رہا تو اس پر کوئی گناہ نہیں، اس لیے کہ اس نے اپنے علم کے مطابق عقیدہ رکھا اور گواہی دی۔ ہم ظاہر ہی پر حکم لگا سکتے ہیں دل کے بھیدوں کا ذمہ دار اللہ ہے۔ ابتدائے اسلام میں منافقوں کے ساتھ مسلمانوں جیسا برتاؤ ہوتاتھا اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ منافق بظاہر اسلام کا دعویٰ کرتے اور باطن میں کفر چھپائے رکھتے تھے۔ نیز ائمہ سلف کے مواقف اس بات کے ترجمان ہیں کہ کافر وہی شخص ہے جس کا کفر قطعی ہو، وہ شخص کافر نہیں کہا جائے گا جس کا کفر مشکوک اور مختلف فیہ ہو، چنانچہ جس کی تکفیر کا مسئلہ مختلف فیہ ہو اس کی تکفیر نہ کرنے والے کو کافر نہیں کہا جائے گا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نماز چھوڑنے والے کو کافر کہتے تھے جب کہ بقیہ تینوں ائمہ اس کی تکفیر نہیں کرتے تھے، اور اسی مسئلہ کو لے کر امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ کے درمیان بحث و مباحثہ بھی ہوا، لیکن کیا امام احمد نے امام شافعی پر کفر کا فتویٰ لگایا، اس لیے کہ وہ امام احمد کی طرح تارک نماز کے کفر کے قائل نہ تھے، نہیں ایسا نہیں ہوا۔ اسی طرح اہل بدعت کی تکفیر نہ کرنے والے پر امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کی طرف جو حکم منسوب ہے، ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تحقیق فرمائی ہے کہ اس سلسلہ میں امام احمد سے دو روایات ہیں، ان میں صحیح ترین روایت عدم تکفیر کی ہے۔[1] یہ حکم اس کے بارے میں ہے جو ایسے شخص کی تکفیر نہ کرے جس کا کفر مختلف فیہ ہو، رہا وہ شخص جس کا کفر قطعی ہے اور اس پر کوئی تکفیر کا حکم نہ لگائے، تو اس کے لیے یہ حکم نہیں ہے۔ اسی طرح امام محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ کی طرف جوتہمت منسوب ہے کہ جو تکفیر کا مستحق نہیں اس کی بھی تکفیر کی جائے، سو اس سلسلہ میں آپ کے قول کا ایک نمونہ پیش خدمت ہے، کہ جس سے آپ کا دعوتی منہج واضح ہوتا ہے اور آپ کی طرف منسوب تہمت و جھوٹ کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ شریف مکہ کے نام خط میں تحریر فرماتے ہیں کہ رہا یہ جھوٹ اوربہتان کہ ہم عام طور سے سب کی تکفیر کرتے ہیں اور جسے اپنے دین کے اظہار پر قدرت ہو اسے ہماری طرف ہجرت کرنا واجب ہے اور یہ کہ جو ہمارے خیال کے مطابق دوسروں کی تکفیر نہیں کرتا اور قتال میں شریک نہیں ہوتا ہم اس کی تکفیر کرتے ہیں، یہ اور اس طرح کی کئی گنا تہمتیں اس جھوٹ اور بہتان کا حصہ ہیں جس کے ذریعہ سے لوگ عوام کو اللہ اور اس کے رسول کے راستہ سے روکتے ہیں، اگر ہم شیخ عبدالقادر جیلانی اور احمد بدوی وغیرہ کے مزارات پرستوں کی تکفیر نہیں کرتے اس لیے کہ انھیں صحیح بات کا علم نہیں اور انھیں کسی نے
Flag Counter