Maktaba Wahhabi

918 - 1201
اور فرمایا: رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ (البقرۃ: 286) ’’اے ہمارے رب! ہم سے مؤاخذہ نہ کر اگر ہم بھول جائیں یا خطا کر جائیں۔‘‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’جب نبی اور مومنوں نے یہ دعا کیا تو میں نے انھیں معاف کردیا۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اُعْطِیْتُ فَاتِحَۃَ الْکِتَابِ، وَ خَوَاتِیْمَ سُوْرَۃَ الْبَقَرَۃِ مِنْ کَنْزِ تَحْتِ الْعَرْشِ وَ اِنَّہٗ لَمْ تَقَرَأْ بِحَرْفِ مِنْہُمَا اِلَّا اَعْطَیْتُہٗ۔)) [1] ’’مجھے سورۂ فاتحہ اور سورۂ بقرہ کی آخری آیات ایک خزانہ سے عطا کی گئیں جو عرش الٰہی کے نیچے ہے اس کا جوحرف پڑھا جائے گا میں اس (کا مدعا) اسے دوں گا۔‘‘ اور ارشاد فرمایا: ((إِنَّ اللّٰہَ تَجَاوَزَ لِیْ عَنْ أُمَّتِیْ الْخَطَأَ وَالنِّسْیَانَ۔)) [2] ’’اللہ تعالیٰ نے میری امت سے بھول چوک کو درگزر کردیا ہے۔‘‘ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ بھول چوک عام ہے خواہ یہ عملی مسائل میں ہو یا قولی اور خبری مسائل میں۔ اسلاف اس طرح کے بہت سے مسائل میں آپس میں اختلاف کرتے رہے لیکن کسی کے بارے میں یہ نہیں ہے کہ اس نے مخالف پر کفر، فسق یا معصیت کا فتویٰ لگایا ہو۔[3] 3:…اختیار و قدرت: جب آدمی کے سامنے حق واضح ہوجائے اور وہ جان بوجھ کر اس کی مخالفت کرتا رہے اور اس کی غلطی کسی اجتہاد پر مبنی نہ ہو تو کیا یہی باتیں اس پر کفر کا حکم لگانے کے لیے کافی ہوں گی؟ نہیں بلکہ ابھی ایک تیسری شرط بھی ضروری ہے وہ یہ کہ ایسے آدمی کے بارے میں دیکھا جائے کہ کیا وہ پورے اختیار و قدرت اور رضا مندی کے ساتھ باطل پر بضد ہے، یا وہ حق سمجھنے سے عاجز ہے یا کسی کے دباؤ میں ہے۔ اس شرط کا پایا جانا ضروری ہے کیونکہ شرعی نصوص اور عصر رسول کے واقعات کی روشنی میں عاجز اور مجبور کا مؤاخذہ نہیں کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: مَن كَفَرَ بِاللَّـهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَـٰكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّـهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿١٠٦﴾ (النحل:106)
Flag Counter