بھی اس کے جسم کاتیرے پاس ہے تو اسے جمع کرکے لا، زمین حکم بجالائی اور وہ بندہ اب (اپنے رب کے سامنے) کھڑا ہوا تھا، اللہ نے دریافت فرمایا: تو نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے عرض کیا: اے رب تیرے ڈر کی وجہ سے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اس کی مغفرت کردی۔ ‘‘ یہ حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر ثابت ہے۔ محدثین نے متعدد اسناد سے اسے ابوسعید، حذیفہ اور عقبہ بن عمرو وغیرہم رضی اللہ عنہم سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، انھیں کامل اعتبار ہے کہ یہ احادیث اور اسناد علم یقینی کا فائدہ دیتی ہیں، اگرچہ ان سے کم درجہ اہل علم اسے علم یقینی نہ مانیں۔ اس حدیث کو نقل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس آدمی کو اللہ کی قدرت کے بارے میں شک تھا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ جسم جلا دیے جانے اور اس کی راکھ اڑا دیے جانے کے بعداللہ تعالی کیسے اسے دوبارہ زندہ کرے گا اور کیسے اس کی راکھ اکٹھا کرپائے گا، گویا وہ دو اساسی اعتقادی تعلیمات سے جاہل تھا: 1۔ ایک کاتعلق اللہ سے ہے یعنی اس بات پر ایمان کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ 2۔ دوسرے کا تعلق آخرت کے دن سے ہے یعنی اس بات پر ایمان کہ اللہ تعالیٰ اس میت کو لوٹائے گا اور اسے اس کے کرتوتوں کا بدلہ دے گا۔ اس کے باوجود چونکہ مجموعی اعتبار سے وہ اللہ پر ایمان رکھتا تھا اور مجموعی اعتبار سے آخرت کے دن کو مانتا تھا، موت کے بعد سزا و جزا کا اسے اعتراف تھا، اس بنا پر اس نے ایک عمل صالح کیا یعنی خود کردہ گناہوں پر اللہ کی سزا سے ڈرا، تو اللہ نے اس کے مجموعی ایمان اور عمل صالح کی وجہ سے اسے بخش دیا۔[1] 2:… قصد و ارادہ: اگر مخالف میں شرط موجود ہے پھر بھی وہ اپنے موجب لعن یا کفریہ قول، یا فعل یا عقیدہ پر باقی رہتا ہے تو اس پرکفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا جب تک کہ دوسری شرط نہ پائی جائے، یعنی یہ معلوم ہوجائے کہ وہ اپنے جرم پر قصد و ارادہ کے ساتھ باقی ہے، ہم دیکھیں گے کہ کیا وہ قصداً کفریہ قول کی مدد کر رہا ہے، اور حق ظاہر ہونے کے باوجود وہ حق کی مخالفت پر مُصر ہے، یا وہ اجتہادی بھول اور شکوک و شبہات کا شکار ہے؟ اس پر کفر کا حکم لگانے سے قبل اس میں اس شرط کا پایا جانا ضروری ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے نادانستہ غلطی کرنے والے اور اجتہادی بھول کرنے والے کو معاف رکھا ہے، اس کا مؤاخذہ نہیں کرے گا۔[2] اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَـٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ (الأحزاب:5) ’’اور تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں جس میں تم نے خطا کی اور لیکن جو تمھارے دلوں نے ارادہ سے کیا۔‘‘ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |