وقیادت دونوں کی اہلیت رکھتے تھے اور انھی کے ہاتھوں اسلامی سلطنت کا دائرہ وسیع ہوا، عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ اپنی ریاست بصرہ سے فتح کا پرچم لہراتے ہوئے افغانستان کی دارالحکومت کابل تک پہنچ گئے اور معاویہ رضی اللہ عنہ کا کیا کہنا، اگر وہ اہل نہ ہوتے تو بیس سال کی طویل مدت تک گورنر نہ بنے رہتے اور جہاں تک عاملین عثمان سے عوام کی ناراضی کا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں میں واضح کر چکاہوں کہ اس کا بنیادی سبب فسادیوں اور فتنہ پر وروں کا پروپیگنڈہ تھا نہ کہ عاملینِ عثمان کی نااہلی تاریخی حقائق یہی ثابت کرتے ہیں۔ ٭ یہی من گھڑت روایت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ تصور پیش کرتی ہے کہ انھوں نے مداہنت اور دھوکہ سے کام لیا اور ایک نازک وقت میں مسلمانوں کی مصلحت ومفاد کی پروا نہ کی۔ حالانکہ یہ بات، کیا فتنہ سے پہلے اورکیا فتنہ کے بعد، کبھی بھی آپ کی سیرت واخلاق سے موافقت نہیں کرتی۔ ٭ اسی طرح یہ روایت علی رضی اللہ عنہ کی نیک نیتی کو ثابت کرنے کے ساتھ آپ کے بارے میں یہ تصور دیتی ہے کہ اس طرح کے سیاسی معاملات میں علی رضی اللہ عنہ جاہل تھے اور مغیرہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کو زیادہ معلومات ومہارتیں تھیں۔[1] ٭ ابو مخنف کی روایت میں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے علی کومعاویہ کی معزولی کا مشورہ دیا اور کہا کہ ’’شام میں ان کی گورنرانہ قیادت آپ کے لیے سیاسی اعتبار سے مفید نہ ہوگی۔‘‘ جب کہ واقدی کی روایت اس کے برعکس ہے اور اس مخنف کی اس روایت میں ہے کہ طلحہ اور زبیر دونوں جلیل القدر صحابہ کے بارے میں ابن عباس نے مشورہ دیا کہ اگر انھیں عراق کے دونوں شہر (بصرہ، کوفہ) کا حاکم بنادیں گے، تو وہ وہاں کی مالی آمدنی پر قابض ہو جائیں گے۔ [2] مذکورہ روایات سنداً بالکل ہی غیر معتبر اور بے بنیاد ہیں، مزید برآں متناً مضطرب اور منکر ہیں، یہ روایات افتراضی ہیں کہ اگر ایسا ہوا تو ایسا ہوگا یہ روایات تاریخی روایات کی حقیقی آئینہ دار نہیں ہیں۔ ان میں نفس پر ستی اور راوی کی رافضی شخصیت اور رجحانات کابڑا دخل ہے۔ [3] حقیقت یہ ہے کہ اگر امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے سابقہ حکام کو معطل کرکے نئے گورنروں کی تقرری کی تھی تو اس کا مقصدیہ تھاکہ دور دراز کے ان علاقوں میں یہ تبدیلی آپ کی خلافت پر بیعت کے لیے زیادہ مؤثر تھی اور آپ اس کے ذریعہ سے فتوحات کا ایک نیا دور لانا چاہتے تھے اور اس بات کے خواہاں تھے کہ جدید عبقریِّ زماں شخصیات کے سامنے دین الٰہی کی خدمت کرنے کا میدان کشادہ ہوجائے۔ [4] امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ قائدانہ صلاحیت کے مالک تھے، آپ کو نفسیات کی معرفت اور حالات کی نزاکت کا |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |