Maktaba Wahhabi

1186 - 1201
ہم دونوں ان پر اچانک حملہ کرکے انھیں قتل کردیں گے، اگر ہم بچ نکلے تو گویا ہم اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب ہوگئے اور اپنے مقتولین کا انتقام لے لیا، لیکن اگر بچ نکلنا ہمیں نصیب نہ ہوا تو آخرت کا اجر توبے حساب ہمیں ملے گاہی۔ شبیب نے کہا: تیرا ستیاناس ہو، اگر علی کے علاوہ کوئی اور ہوتا تو میرے لیے یہ کام کچھ آسان ہوتا، علی نے اسلام کی بڑی بڑی خدمات انجام دیں ہیں، اسلام لانے میں انھیں سابقیت کا شرف حاصل ہے، میں تو اس کام میں تمھارا ساتھ نہیں دوں گا۔ ابن ملجم نے کہا: کیا تمھیں معلوم ہے کہ علی نے معرکۂ نہروان میں اللہ تعالیٰ کے سیکڑوں نیک اور پاکباز بندوں کو قتل کیا تھا؟ شبیب نے مثبت جواب دیا۔ ابن ملجم نے کہا: تب علی کو اپنے بھائیوں کے بدلہ میں کیوں نہ قتل کریں؟ اس طرح شبیب نے بھی اس کی بات مان لی اور پھر دونوں قطام کے پاس آئے، وہ وہاں کی جامع مسجد میں اعتکاف بیٹھی تھی، ان دونوں نے اسے بتایا کہ ہم دونوں علی کے قتل پر متفق ہوچکے ہیں۔ قطام نے کہا: ٹھیک ہے جس دن اسے انجام دینا ہوگا میرے پاس آنا، چنانچہ اس جمعہ کی رات جس کی صبح میں علی رضی اللہ عنہ شہید کیے گئے ابن ملجم قطام کے پاس دوبارہ آیا، یہ 40ھ کا واقعہ ہے اور کہا آج ہی کی وہ رات ہے جس میں ہمارے ساتھیوں میں سے ہر ایک نے اپنے مطلوبہ شخص کو قتل کرنے کا وعدہ اور منصوبہ بنا رکھا ہے۔ قطام نے ریشمی پٹی منگوائی اور اسے ان کے سروں سے باندھ دیا، پھر وہ اپنی اپنی تلواریں لے کر چھجے کے نیچے اس دروازہ کے سامنے جاکر بیٹھ گئے جہاں سے علی رضی اللہ عنہ نماز کے لیے مسجد میں داخل ہوا کرتے تھے، چنانچہ جب علی رضی اللہ عنہ باہر نکلے تو سب سے پہلے شبیب نے اپنی تلوار سے آپ پر حملہ کیا، لیکن اس کی تلوار دروازہ کے پٹ پر جالگی، اس کے بعد ابن ملجم نے وار کیا، اس کی تلوار آپ کے بیچ سر پر لگی، جب کہ وردان وار نہ کرسکا اور بھاگ کر اپنے گھر میں داخل ہوگیا، اپنے سینہ سے جلدی جلدی ریشمی پٹی کھولنے لگا کہ اتنے میں اسی کے گھرانے کا ایک آدمی وہاں جاپہنچا اور پوچھنے لگا یہ تلوار اور یہ ریشمی پٹی کیسی ہے؟ وردان نے اسے پورا واقعہ سنایا، تب وہ آدمی باہر گیا اور تلوار لاکر وردان کو قتل کردیا، جب کہ شبیب غلس کی تاریکی میں کندہ کی آبادی کی طرف بھاگا، ہر طرف شور و ہنگامہ بپا ہوچکا تھا، اسی دوران حضر موت کے ایک آدمی عویمر نے شبیب کو دبوچ لیا اور اس کے ہاتھ سے تلوار چھین کر اسے زمین پر پٹخ دیا، لیکن جب دیکھا کہ لوگ اس کی تلاش میں ہیں اور اس کی تلوار میرے ہاتھ میں ہے تو عویمرڈرا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ مجھے قاتل سمجھ کر ہی قتل کردیں، اس لیے عویمر نے اسے چھوڑ دیا اور شبیب موقع پاکر ہجوم میں گھس گیا اور بچ گیا۔ ابن ملجم کو لوگوں نے پکڑ لیا، اس کی مُشکیں کس دیں، قبیلہ ہمدان کے ابودماء کنیت والے ایک آدمی نے اس کی تلوار چھین لی اوراس کے پاؤں پر وار کردیا جس سے وہ زمین پر گر گیا، علی رضی اللہ عنہ نے جعدہ بن ہبیرۃ بن ابی وہب کو آگے بڑھایا، انھوں نے لوگوں کو فجر کی نماز پڑھائی، اس کے بعد علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس آدمی کو میرے پاس لاؤ، چنانچہ وہ لایا گیا، آپ نے اس سے مخاطب ہو کر فرمایا: اے اللہ کے دشمن! کیا میں نے تجھ پر احسان نہیں کیا تھا؟ اس نے جواب دیا: بے شک!آپ نے فرمایا: پھر کس بات نے تجھے مجھ پر حملہ کرنے کے لیے مجبور کیا؟ ابن ملجم نے
Flag Counter