Maktaba Wahhabi

230 - 263
آپ کو عطا فرمایا گیا تھا اوراسی عطا شدہ علم کے مطابق آپ نے ہزاروں غیب کی باتوں کی خبریں دیں جن کی سچائی کا ہر عام وخاص نے مشاہدہ کیا۔اس کی وجہ سے یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ نبی علیہ السلام کو ہزاروں غیب کی چیزوں کا علم عطا کیا گیا تھا‘مگر اس کواصطلاح قرآن میں علم غیب نہیں کہہ سکتے اور اس کی وجہ سے رسول کو عالم الغیب نہیں کہا جا سکتا۔[1] علامہ سعیدی رحمہ اللہ کا مفتی محمد شفیع کی اس تفسیر پر تبصرہ: مفتی محمد شفیع نے کہا ہے’’عطاء شدہ ہزاروں لاکھوں غیب کی چیزوں کے علم کو اصطلاح قرآن میں علم غیب نہیں کہہ سکتے‘‘ علامہ سعیدی کہتے ہیں کہ مفتی شفیع دیوبندی کا یہ قول صحیح نہیں ہے‘کیونکہ مومنین کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جن غیب کی خبروں کا علم عطاء فرمایا مثلاً جنت‘دوزخ‘فرشتوں‘جنات‘عرش‘ کرسی وغیرہم ان کے متعلق قرآن مجید میں ارشاد ہے’’فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ(2)الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ‘‘[2](یہ اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے ہدایت ہے0جو غیب پر ایمان لاتےے ہیں)۔ ’’يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ‘‘ کا معنی ہے’’یصدّقون بالغیب‘‘اور تصدیق علم کی قسم ہے‘سواس کا معنی ہے’’یعلمون بالغیب‘‘ لہٰذا اس آیت میں اللہ عزوجل نے متقین کو جن غیب کی خبروں کا علم عطاء فرمایا تھا‘اس پر اللہ تعالیٰ نے علمِ غیب کا اطلاق فرمایا ہے۔ اس کو آسان لفظوں میں یوں کہیں گے کہ متقین غیب کے خبروں پر ایمان لاتے ہیں اور غیب کی خبروں پر ایمان اسی وقت جب اُن کوغیب کا علم ہو گااور یہ اصطلاح قرآن کی بات نہیں ہے بلکہ عین قرآن میں اللہ تعالیٰ نے متقین کے علم پر علمِ غیب کا اطلاق فرمایا ہے سو مفتی شفیع کی مذکورہ تفسیر خلافِ قرآن ہے اور رہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عالم الغیب کا اطلاق تو وہ ہمارے نزدیک جائز نہیں ہے۔[3] حضرت نوح علیہ السلام سے علمِ غیب کی اور خزانوں کی نفی کے محامل: ’’وَلَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللّٰهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ‘‘حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی تذلّل اور تواضع کو اختیار کرتے ہوئے فرمایا:میں ایسا دعویٰ نہیں کرتا کہ میرے پاس اللہ عزوجل کے سارے خزانے ہیں اور یہ خزانے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہیں انعام فرماتے ہیں۔اور نہ میں یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ میں از خود غیب کو جانتا ہوں‘کیونکہ اللہ عزوجل کی تعلیم کے بغیر کوئی غیب کو نہیں جانتا۔[4]
Flag Counter