Maktaba Wahhabi

230 - 1201
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ ، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے احکام پر بصد شوق عمل بھی کرتے تھے، ایک مرتبہ کا فروں کا ایک وفد مدینہ آیا، اس وقت بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم مرتدین وباغیوں کی سرکوبی اور ان سے جنگ کے لیے مدینہ سے باہر گئے ہوئے تھے۔ کافروں کے دلوں میں کچھ شیطنت آسکتی تھی کہ اس وقت یہاں مسلمان تھوڑے اور کمزور ہیں، پس ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھانپ لیا کہ اسلامی دارالحکومت اور مسلمانوں کے لیے یہ لوگ خطرہ ہیں، اس لیے آپ نے شہر مدینہ پر پہرہ لگادیا، اور علی، زبیر، طلحہ، اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کو پہرے دار جماعتوں کا صدربنادیا، جب تک یہ لوگ ان کافروں سے مامون نہ ہوگئے اپنی ذمہ داری نبھاتے رہے۔ [1] سیّدنا علی اور ابوبکر رضی اللہ عنہما کے درمیان کامل اعتماد،اخوت، ہمدردی وغمگساری ہی کا نتیجہ تھا کہ علی رضی اللہ عنہ سید اہل بیت اور نواسۂ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے باپ ہوتے ہوئے بھائیوں اور دوستوں کی طرح ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہدایا و تحائف قبول کرتے تھے، چنانچہ معرکۂ عین التمر میں ’’صہبائ‘‘ نامی گرفتار شدہ لونڈی کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف سے بطور ہدیہ قبول کیا اور اس کے بطن سے آپ کو عمر اور رقیہ نام کی دواو لادیں ہوئیں۔ [2] اسی طرح جنگ یمامہ میں دیگر قیدیوں کے ساتھ خولہ بنت جعفر بن قیس بھی قید کی گئیں، اسے بھی ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو بطور ہدیہ دیا اور اس کے بطن سے آپ کے بیٹے محمد بن الحنفیہ پیدا ہوئے، چونکہ خولہ مرتدین کی جنگ میں قید کی گئی تھیں، ان کا تعلق بنو حنیفہ سے تھا اس لیے جس قبیلہ سے ان کا تعلق تھا اس کی طرف ان کے بیٹے کو منسوب کردیا گیا اور انھیں محمد بن الحنفیہ کہا جانے لگا۔[3] ابوبکر ر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر صحابہ کرام کی بیعت کا تذکرہ کرتے ہوئے جو ینی لکھتے ہیں: ’’تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اطاعت قبول کرلی، علی رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اطاعت قبول کی، اور سب کے سامنے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی، اور بنو حنیفہ (کے مرتدین) سے جنگ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے‘‘ [4] متعدد روایات میں وارد ہے کہ علی رضی اللہ عنہ ، اور آپ کی اولاد نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے خمس، فے اور دیگر مالی تحائف قبول کیے، بلکہ علی رضی اللہ عنہ آپ کے عہد میں اموال خمس، وفے کے متولی وتقسیم کار تھے اور یہ اموال آپ ہی کے پاس تھے، پھر نسلاً بعد نسل حسن، حسین، حسن بن حسن اور زید بن حسن کے ہاتھوں میں منتقل ہوتے رہے۔[5] علی رضی اللہ عنہ پانچ وقت کی نماز مسجدمیں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے پڑھتے رہے، ان کی امامت پر بصد احترام مطمئن تھے اور لوگوں کے سامنے ہمیشہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اتفاق اور محبت کا اظہار کرتے رہے۔ [6]
Flag Counter