اثنا عشری شیعہ کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد کے ائمہ کو نامزد کردیا ہے، ان کی تعداد بارہ ہے، نہ وہ اس سے زیادہ ہوں گے نہ کم، اور وہ یہ ہیں: 1۔ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ المرتضیٰ (ت:40ھ) 2۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہما الزکی (ت: 50ھ) 3۔ حسین بن علی رضی اللہ عنہما سید الشہداء (ت:61ھ) 4۔ علی بن حسین زین العابدین (ت:95ھ) 5۔ محمد بن علی الباقر (ت:114ھ) 6۔ جعفر بن محمد الصادق (ت:148ھ) 7۔ موسیٰ بن جعفر الکاظم (ت:183ھ) 8۔ علی بن موسیٰ الرضا (ت:203ھ) 9۔ محمد بن علی الجواد (ت:220ھ) 10۔ علی بن محمد الہادی (ت:254ھ) 11۔ حسن بن علی العسکری (ت:260ھ) 12۔ محمد بن الحسن المہدی (ت:256ھ) ابن سبا، وصیت خلافت کا حکم علی رضی اللہ عنہ پر ختم مانتا تھا، لیکن اس کے بعد کچھ ایسے لوگ آئے جنھوں نے اسے آپ کی اولاد تک دراز کردیا، یہ تمام شیعی تانے بانے نہایت چالاکی اور خاموشی سے تنے جارہے تھے، اس کے باوجود اہل بیت کے بعض افراد کو جب ان پردہ داریوں کی بھنک لگی تو انھوں نے اس کا سختی سے انکار کیا، جیسا کہ اہل بیت کے دادا امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے کیا۔ یہی وجہ تھی کہ ان جھوٹوں نے اہل بیت کے خلاف تقیہ کا عقیدہ گھڑا، تاکہ انھیں اپنے افکار و نظریات کی نشر و اشاعت میں آسانی بھی ہو، اور اہل بیت کے سچے اور اعلانیہ مواقف کے تابعداروں کی سختی سے محفوظ بھی رہ سکیں۔[1] شیعہ جماعت نے جو سب سے مہلک ترین نظریہ ایجاد کیا وہ یہ کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے فوراً بعد علی رضی اللہ عنہ کے لیے خلافت کی وصیت کی تھی اور جو لوگ آپ سے پہلے اس منصب خلافت پر رہے ان سب نے آپ کا حق غصب کیا، جیسا کہ ان کی کتاب ’’الکافی‘‘ میں ہے کہ جو اس حالت میں مرے کہ اسے اپنے امام کی معرفت نہ ہو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔ ان لوگوں کے زعم کے مطابق علی رضی اللہ عنہ ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی تھے۔[2] لیکن خلفائے راشدین کی زندگی کی پوری تاریخ کا تاریخی تتبع و استقراء کے بعد بھی ہمیں ایسی کسی وصیت کا ذکر نہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ملتا ہے اور نہ عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں، ہاں عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے آخری ایام میں جب کہ فتنہ اپنا سرابھار رہا تھا، ہمیں اس کے آغاز و ابتدا کے اثرات ملتے ہیں، لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کانوں میں جب یہ بات پہنچی تو انھوں نے فوراً اس کی تردید کی اوراس کے جھوٹ کو واضح کیا، بلکہ اس کی مخالفت میں سب سے سخت موقف رکھنے والے خود علی رضی اللہ عنہ ، اور ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ پھر اس جھوٹ نے ایک فکری تحریک کی شکل اختیار کرلی، اسے ایک عقیدہ قرار دیا گیا جس پر ایمان لانا اور جس کی طرف دعوت دینا فرض قرار دیا گیا اوریہ سب کچھ علی رضی اللہ عنہ کے دور خلاف میں ہوا۔ جس وصیت کے روافض دعوے دار ہیں خود ان کے علماء نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ عبداللہ بن سبا کی کارستانی |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |