Maktaba Wahhabi

981 - 1201
ہے جیسا کہ نوبختی اور کشی وغیرہ نے ذکر کیا ہے اور یہ بات پیچھے گزر بھی چکی ہے۔ بہرحال ان کے زعم باطل کی تردید کے لیے متعدد صحابہ سے منقول صحیح روایات ہی کافی ہیں، جن میں خود علی رضی اللہ عنہ سرفہرست ہیں، چنانچہ اس ضمن میں یہاں چند دلائل کو ذکر کیا جارہا ہے۔ ٭ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں کچھ لوگوں نے ذکر کیا کہ علی رضی اللہ عنہ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے) وصی تھے۔ تو آپ نے کہا کہ کب انھیں وصی بنایا، میں تو آپ کی وفات کے وقت سرمبارک اپنے سینہ پر یا انھوں نے (بجائے سینہ کے) کہا کہ اپنی گود میں رکھے ہوئی تھی۔ پھر آپ نے پانی کا طشت منگوایا تھا کہ اتنے میں (سرمبارک) میری گود میں جھک گیا اور میں سمجھ نہ سکی کہ آپ کی وفات ہوچکی ہے، تو آپ نے علی کو وصی کب بنایا؟ [1] اس حدیث میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی صراحت کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو کوئی وصیت نہیں کی، عدم وصیت کی سب سے قوی ترین دلیل ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وفات کے وقت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گود میں تھے، پس اگر کوئی وصیت ہوتی تو دوسروں کے بالمقابل آپ کو اس کا زیادہ علم ہوتا۔ ٭ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے باہر آئے، یہ اس مرض کا واقعہ ہے جس میں آپ نے وفات پائی تھی۔ صحابہ نے آپ سے پوچھا: ابوالحسن! حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا آج مزاج کیسا ہے؟ صبح انھوں نے بتایا کہ الحمد للہ اب آپ کو افاقہ ہے، پھر عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر کہا: تم اللہ کی قسم تین دن کے بعد تابعداری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاؤ گے۔ اللہ کی قسم مجھے تو ایسے آثار نظر آرہے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مرض سے صحت نہیں پاسکیں گے، موت کے وقت بنوعبدالمطلب کے چہروں کی مجھے خوب شناخت ہے، اب ہمیں آپ کے پاس چلنا چاہیے اور آپ سے پوچھنا چاہیے کہ آپ کے بعد خلافت کسے ملے گی، اگر ہم اس کے مستحق ہیں تو ہمیں معلوم ہوجائے گا اور اگر کوئی دوسرا مستحق ہوگا تو وہ بھی معلوم ہوجائے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے متعلق اپنے خلیفہ کو ممکن ہے کچھ وصیتیں کردیں، لیکن علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! اگر ہم نے اس وقت آپ سے اس سے متعلق کچھ پوچھا اورآپ نے انکار کردیا تو پھر لوگ ہمیں ہمیشہ کے لیے اس سے محروم کردیں گے۔ میں تو ہرگز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سے متعلق کچھ نہ پوچھوں گا۔[2] مذکورہ حدیث میں آپ کے قول میں صحابہ کے تئیں یہ شہادت موجود ہے کہ وہ لوگ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تنفیذ کے بڑے پابند تھے، پس اگر خلافت سے تعلق سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی خاص وصیت ہوتی تو اسے نافذ کرنے سے کوئی پیچھے نہ رہتا اور نہ ہی انصار سقیفۂ بنو ساعدہ میں پوری آزادی، طاقت اور صداقت کے ساتھ یہ کہہ کر اپنی رائے کا اظہار نہ کرتے کہ ’’مِنَّا اَمِیْرٌ وَ مِنْکُمْ اَمِیْرٌ‘‘[3]ایک امیر ہم میں سے ہوگا اور ایک تم میں
Flag Counter