Maktaba Wahhabi

982 - 1201
سے۔ بلکہ جس کے نام وصیت ہوتی تو اس پر بیعت کرلیتے، یا کم از کم اس ہماہمی میں کوئی نہ کوئی ضرور اس وصیت کا ذکر کرتا۔ نیز اگر کسی کے نام خلافت کی نامزدگی ہوتی تو علی رضی اللہ عنہ بصراحت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہتے کہ اس معاملہ میں اب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیسے دریافت کریں جب کہ آپ میرے لیے خلافت کی وصیت کرچکے ہیں اور پھر اسی دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی، لیکن کوئی بات سامنے نہ آئی، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ خلافت کی نامزدگی کا جو دعویٰ کیا جاتا ہے وہ یکسربے بنیادہے اور اس سلسلہ میں علی رضی اللہ عنہ کی نامزدگی کے تئیں جو روایات و اقوال منقول ہیں وہ سب غلط ہیں، کیونکہ یہ سب آپ کی مذکورہ واضح نص کے خلاف ہیں، بلکہ ان کے تمام تر ادلۂ سمعیہ یا تو مدعیٰ پر دلالت نہیں کرتے یا دلالت کرتے ہیں لیکن وہ جھوٹی اور غیر معتبر ہیں۔[1] ٭ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تمھیں کسی چیز کی خاص وصیت کی ہے تو آپ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کسی ایسی چیز کے ساتھ خاص نہیں کیا کہ جسے سارے لوگ نہ جانتے ہوں، سوائے ایک چیز کے جو میری اس تلوار کے غلاف میںہے، پھر آپ نے اس میں سے ایک لکھا ہوا صحیفہ نکالا، اس میں لکھا تھا: ((لَعَنَ اللّٰہُ مَنْ ذَبَحَ لِغَیْرِ اللّٰہِ، وَ لَعَنَ اللّٰہُ مَنْ غَیَّرَ مَنَارَ الْاَرْضِ وَ لَعَنَ اللّٰہُ مَنْ لَعَنَ وَالِدَہٗ وَ لَعَنَ اللّٰہُ مَنْ آوٰیَ مُحْدِثًا۔))[2] ’’اللہ کی لعنت ہے اس آدمی پر جس نے غیر اللہ کے لیے ذبیحہ کیا اور لعنت ہے اللہ کی اس پر جس نے زمین کے نشان کو بدل دیا اور اللہ کی لعنت ہے اس پر جس نے اپنے والد کو لعنت کی اور اللہ کی لعنت ہے اس پر جس نے کسی بدعتی کو پناہ دی۔‘‘ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’صحیحین وغیرہ میں علی رضی اللہ عنہ سے ثابت شدہ یہ حدیث روافض کے اس خیال کی تردید کرتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں خلافت کی وصیت کی تھی، اگر بات ایسی ہی ہوتی تو صحابہ کرام میں سے کوئی بھی اس کا منکر نہ ہوتا، کیونکہ وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اور آپ کی وفات کے بعد بھی اللہ اور اس کے رسول کے بہت زیادہ مطیع تھے اور مسلسل ایسی حرکت ان سے ناممکن تھی کہ جسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مقدم نہ کیا ہو وہ اسے مقدم کرتے رہیں اور جسے مقدم کیا ہو اسے مؤخر کرتے رہیں، ہرگز نہیں، ایسا کبھی بھی نہیں ہوسکتا؟ اگر کوئی شخص صحابہ کے بارے میں ایسی بدگمانی کرتاہے تو گویا وہ تمام صحابہ کو فاجر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاند اور آپ کے حکم کا مخالف گردانتا ہے اورجو فکر کی اس پستی تک پہنچ جائے اس
Flag Counter