Maktaba Wahhabi

983 - 1201
نے اسلام کا قلادہ اپنی گردن سے اتار دیا اور تمام ائمہ سلف کے نزدیک وہ کافر ہوگیا۔‘‘[1] اور امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’اس حدیث میں علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں وصیت وغیرہ سے متعلق روافض اور امامیہ شیعہ کا جو خود ساختہ عقیدہ اور زعم باطل ہے اس کی تردید ہے۔‘‘[2] ٭ عمرو بن سفیان کا بیان ہے کہ جنگ جمل کے موقع پر جب علی رضی اللہ عنہ نمودار ہوئے تو کہنے لگے: اے لوگو! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امارت کے تعلق سے ہماری کوئی تخصیص نہیں کی، بلکہ ہم سب کی رائے اس بات پر متفق ہوئی کہ ہم ابوبکر کو خلیفہ منتخب کرلیں ، چنانچہ آپ نے خلافت سنبھالی اور اس پر ڈٹے رہے یہاں تک کہ مدت پوری کی۔[3] ٭ امام بیہقی نے اپنی سند سے شقیق بن سلمہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ کیا آپ کسی کو ہم پر خلیفہ نامزد نہیں کریں گے؟ تو آپ نے فرمایا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کیا کہ میں نامزد کردوں، لیکن اگر اللہ کو لوگوں کی بھلائی منظور ہوگی تو انھیں میرے بعد کسی بہتر فرد پر متفق کردے گا جیسا کہ اس سے پہلے ان کے نبی کے بعد ان کے بہتر فرد پر سب کو جمع کیا تھا۔[4] یہ بھی ایک واضح دلیل ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت کی نامزدگی کا دعویٰ ان روافض کی افتراپردازی ہے جن کے دل علی، اہل بیت، اور تمام اصحاب رسول ( رضی اللہ عنہم ) کے خلاف حسد و عداوت سے بھرے ہوئے ہیں۔ حبِّ علی سے ان کا دعویٰ محض ایک آڑ ہے جس کے پس پردہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں رچاتے رہتے ہیں۔[5] مذکورہ قطعی اور یقینی نصوص سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شیعہ حضرات کے مزعومہ وصیت کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور روافض نے جن دلائل پر اعتماد کیا ہے وہ عبداللہ بن سباء کی وضع کردہ ہیں، اسی نے سب سے پہلے اس بدعت کو ایجاد کیا، اس کے بعد اس کے لیے اسناد گھڑیں اور پھر متون کو وضع کرکے ان کے ساتھ جوڑ دیا اورپھر کذب وبہتان کے راستہ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیا اس بہتان اور کذب بیانی سے ان کا مقصد صحابہ کرام کو اس بات سے مطعون کرنا ہے کہ انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی خلاف ورزی کی اور اس خلاف ورزی پر سب کے سب متفق ہوگئے اور پھر اسی راستہ سے قرآن و حدیث کے ان تمام تر ذخائر کو مطعون کرنا مقصد ہے جو ان صحابہ کرام کے ذریعہ سے مسلمانوں کی نسلوں تک پہنچے۔[6] امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ’’الحلی‘‘ پر تنقید اور اس کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رہا علی رضی اللہ عنہ کے حق میں
Flag Counter