Maktaba Wahhabi

852 - 1201
بھائیوں کو جمع ہونے کے لیے کہو اور کوفہ سے جماعت کو شکل میں نہ نکلو، بلکہ ایک ایک کرکے جاؤ، تاکہ تمھارے ارادہ کو کوئی سمجھ نہ سکے، چنانچہ انھوں نے اہل بصرہ وغیرہ کے اپنے ہم خیال لوگوں کے نام یہ عام خط جاری کیا کہ ہم سب لوگ متحد ہونا چاہتے ہیں، اس لیے نہر کے پاس سب لوگ اکٹھا ہوں، پھریہ بدباطن لوگ بھی خفیہ طور سے ایک ایک کرکے نکلنے لگے، مبادا کہیں کوئی انھیں روک نہ دے، انھوں نے اپنے والدین، بزرگوں، ماموؤں، پھوپھیوں و ممانیوں اور تمام قرابت داروں کو پیچھے چھوڑا اور خود آگے بڑھے، اپنی جہالت، کم علمی اور ناسمجھی کی بناپر ان کایہ عقیدہ تھا کہ ہمارا یہ اقدام رَبُّ السَّمٰوٰاتِ وَالْاَرْضِ کی رضا کا باعث ہے، حالانکہ یہ نہیں جانا کہ یہ رضا نہیں بلکہ کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ اور سب سے مہلک اور عظیم غلطی ہے اور یہ نہ سوچا کہ یہ اس ابلیس لعین کا دھوکا ہوسکتا ہے جو آسمان سے دھتکارا ہوا ہے، اور ہمارے باپ آدم پھر ان کی ذریت جب تک زندہ ہے سب کے درمیان عداوت کے بیج بونے والا ہے۔ بہرحال خروج کے وقت راستہ میں ایک جماعت اپنی اولاد، بھائیوں اور قرابت داروں سے ملی اور انھیں ڈانٹا، پھٹکارا اور واپس ہوجانے کو کہا، چنانچہ ان میں سے کچھ تو رک گئے اور استقامت اختیار کی اور کچھ بھاگ کر خوارج سے آملے اور قیامت تک کے لیے نقصان اٹھایا، اس طرح بقیہ خوارج بھی مقررہ جگہ پر پہنچے اور اہل بصرہ وغیرہ میں سے جس کے پاس بھی خطوط گئے تھے سب کے سب ’’نہروان‘‘ میں اکٹھا ہوئے اور ان کی ایک بڑی قوت اور شوکت ابھر کر سامنے آئی۔[1] اِدھر حکمین جب کسی فیصلہ کن نتیجہ پر نہ پہنچ سکے تو علی رضی اللہ عنہ نے خوارج کے نام جو کہ نہروان میں جمع ہوچکے تھے ایک خط بھیجا کہ حکمین کسی فیصلہ کن نتیجہ پر نہ پہنچ سکے اور معاملہ ختم ہوگیا ہے، لہٰذا تم اپنی پہلی حالت پر لوٹ آؤ اور ہمارے ساتھ چل کر اہل شام سے لڑائی کرو، لیکن انھوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ جب تک آپ اپنے کفر کا اقرار نہ کرلیں اور اس سے توبہ نہ کرلیں ہم نہیں آئیں گے۔ آپ نے اس سے انکار کیا۔[2] ایک اور روایت میں ہے کہ انھوں نے جواباً یہ خط بھیجا: ’’اما بعد!تم اپنے رب کے لیے ناراض نہیں ہوئے ہو، بلکہ اپنی ذات کے لیے ناراض ہوئے، لہٰذا اگر تم اقرار کرتے ہو کہ جو کچھ ہوا کفر تھا اور توبہ کرلیتے ہو تو ہم اپنے اور تمھارے بارے میں دوبارہ غور کریں گے ورنہ ہمارا تم سے کوئی تعلق نہیں، اللہ تعالیٰ خائنوں کو پسند نہیں کرتا، علی رضی اللہ عنہ ان کا خط پڑھ کر بہت مایوس ہوئے، آپ نے انھیں چھوڑ کر بقیہ لوگوں کو اپنے ساتھ لیا اور اہل شام سے جنگ کے لیے نکل جانے ہی کو مناسب سمجھا، واضح رہے کہ خوارج کی جانب سے علی ( رضی اللہ عنہ ) کی تکفیر، اور ان سے توبہ کے مطالبہ کا اعلان ان روایات سے ثابت نہیں ہوتا، ہاں اتنا ضرور ہے کہ یہ روایات علی وعثمان ( رضی اللہ عنہم ا) کی تکفیر اور اس مسئلہ کو لے کر دیگر مومنوں کو آزمائش میں ڈالنے کی ان کی روش کے موافق ہے۔‘‘ [3]
Flag Counter