Maktaba Wahhabi

851 - 1201
وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴿٤٧﴾ (المائدۃ: 47) ’’اور جو اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہی لوگ نافرمان ہیں۔ ‘‘ پھر کہا: میں اپنے ہم قبلہ بھائیوں کے بارے میں یقین سے کہتا ہوں کہ وہ نفس پرستی میں مبتلا ہیں، انھوں نے کتاب کے فیصلہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ قول و عمل میں ظلم سے کام لیا ہے، لہٰذا ان سے جہاد کرنا مومنوں پر واجب ہے۔ یہ سن کر ان میں سے ایک آدمی جس کا نام عبداللہ بن شجرہ السلمی تھا، رونے لگا، پھر اس نے حاضرین کو علی اور ان کے ساتھیوں کے خلاف سیف و سنان کے ساتھ نکل پڑنے کے لیے ابھارا اور کہا: ان کے چہروں اور پیشانیوں پر تلواریں برساؤ تاوقتیکہ رحمن رحیم کی اطاعت غالب آجائے، اگر تم کامیاب ہوگئے اور وہ تمھاری طلب کے مطابق اللہ کی اطاعت کے لیے جھک گئے تو اللہ تمھیں اپنے اطاعت گزار اور فرماں بردار بندوں کا اجر دے گا اور اگر تم ناکام ہوگئے تو اللہ کی رضا اور اس کی جنت سے افضل کیا چیز ہے۔[1] حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے، خوارج کے دل و دماغ پر شیطان کے مذکورہ واہموں کا ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ بھی انسانوں کی ایک قسم ہے، بنو آدم کی ایک عجیب و غریب قسم، اللہ پاک و برتر ہے کہ اس نے اپنے ارادہ، حکمت اور تقدیر کے مطابق اپنی مخلوقات کو متنوع بنایا، خوارج کے بارے میں بعض اسلاف نے کتنی عمدہ بات کہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان: قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُم بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا ﴿١٠٣﴾ الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا ﴿١٠٤﴾ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا ﴿١٠٥﴾ (الکہف:103 تا 105) میں خوارج مراد ہیں۔ جس کا ترجمہ یہ ہے: ’’کہہ دے کیا ہم تمھیں وہ لوگ بتائیں جو اعمال میں سب سے زیادہ خسارے والے ہیں۔وہ لوگ جن کی کوشش دنیا کی زندگی میں ضائع ہوگئی اور وہ سمجھتے ہیں کہ بے شک وہ ایک اچھا کام کر رہے ہیں۔یہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا، تو ان کے اعمال ضائع ہوگئے، سو ہم قیامت کے دن ان کے لیے کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔‘‘ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اب یہ جہلاء، گمراہ، اور اقوال و افعال کے بدبخت لوگ اس بات پر متفق ہوگئے کہ مسلمانوں کے درمیان بغاوت کی ہوا پھیلائی جائے اور راہ ہموار کرنے کے لیے پہلے مدائن چلیں کہ جہاں سے لوگوں کی پشت پناہی مل سکے، اور وہاں کے لوگوں کو اپنی حمایت میں لایا جائے، پھر بصرہ میں جو لوگ ان کے ہم خیال اور بااثر ہیں انھیں یہ لوگ بلائیں اور سب کا اجتماع ہو۔ زید بن حصن الطائی نے کہا: آپ لوگ مدائن پر قابو نہیں پاسکو گے، وہاں ایک لشکر موجود ہے جو تمھیں اندر نہیں جانے دے گا، لہٰذا ’’جوخی نہر‘‘ کے پل کے پاس اپنے
Flag Counter