37: جھوٹی تمناؤں پر تکیہ کرنے سے بچتے رہو، تمنائیں بے وقوفوں کا سرمایہ ہوتی ہیں۔ 38: لوگ محو خواب ہیں جب مریں گے تو ہوش آجائے گا۔ 39: لوگ جن باتوں کو نہیں جانتے ان کے دشمن ہوجاتے ہیں۔ 40: جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا ہلاکت سے بچ گیا۔ 41: کبھی زبان سے نکلا ہوا ایک لفظ نعمتوں کو چھین لیتا ہے۔ 42: اخلاق و آداب نئے جوڑے ہیں اور ذہن ایک صاف شفاف آئینہ ہے۔ 43: فقر ذہین کو گونگا کردیتا ہے اور تنگ دست اپنے شہر میں اجنبی ہوتا ہے۔ 44: جب دنیا کسی پر فدا ہوتی ہے تو دوسروں کی خوبیاں بھی اس سے منسوب کردی جاتی ہیں اور جب وہ منہ پھیر لیتی ہے یعنی اس کا زوال ہوتا ہے تو اس سے اس کی ذاتی خوبیوں کا بھی انکار کردیا جاتا ہے۔ 45: ان دلوں کو بھی آرام دو، ان کے لیے حکمت آمیز لطائف تلاش کرو، کیونکہ جسموں کی طرح دل بھی تھکتے اور اکتا جایا کرتے ہیں۔[1] 46: چہرہ کی تازگی و بشاشت مستقل ایک عطیہ الٰہی ہے۔[2] 47: انتقام کی قدرت کے باوجود معاف کردینا قدرت کی شکر گزاری ہے۔[3] 48: بار بار عذر و معذرت گناہوں کی یاد آوری کے اسباب ہیں۔[4] 49: اموات کی طرف دیکھنا سب سے بلیغ وعظ ہے۔[5] 50: موت کی یاد دلوں کو صاف شفاف بناتی ہے۔[6] یہ تھے امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے چند حِکم و بصائر جو لوگوں کے درمیان مشہور ہیں۔ یہ آپ کی زندگی کے بے شمار تجربات میں سے صرف بعض تجربات کا خلاصہ ہیں، جو مختصر جملوں میں نہایت جامع و مانع ہیں اور بلند مقاصد پر مشتمل ہیں، آپ نے جس ماحول و معاشرہ میں زندگی گزاری صرف اس میں ہی نہیں بلکہ آج تک انسانی معاشروں میں ان اقوال اور حِکم وبصائر کی گہری تاثیر دیکھی جارہی ہے، واضح رہے کہ مسلم معاشرہ کی اصلاح اور تعلیم و تربیت کے لیے ان اقوال زریں، خطبات، اشعار اور مواعظ کو امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ نے بطور وسیلہ استعمال کیا۔ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |