ان کی جد و جہد کے اعتراف کی دلیل ہے۔ کیونکہ جس انسان کو کسی کی عظمت کا اعتراف ہوتا ہے تو وہ اس پر اپنی فدائیت کا اظہار کرتا ہے، وہ خود کو یا اپنے کسی عزیز ترین کو اس پر قربان کرنے کو تیار رہتا ہے۔[1] سچ تو یہ ہے کہ غزوۂ خندق کے موقع پر زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ((لِکُلّ ِنَبِيٍّ حَوَارِيٌّ وَ حَوَارِيِّ الزُّبَیْرُ)) کا ایسا اعزازی تمغہ ملا جو قیامت تک یادگار رہے گا۔[2] نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو ’’حواری‘‘ کی صفت سے موصوف کیا اور یہ ایک معنی خیز صفت ہے، جس میں وسعت بھی ہے اور گہرائی بھی۔ اگر کوئی شخص تدبر و باریک بینی سے اس کے معانی کا مطالعہ کرے تو اس کی وسعتوں کا احاطہ کرسکتاہے، اس کے نقوش کو پاسکتاہے اور اسرار و رموز سے واقف ہوسکتاہے، ان معانی و مفاہیم پر علمائے دین، داعیان اسلام اور مربیان امت کو توجہ کرنے کی زیادہ ضرورت ہے، اس لیے کہ دور حاضر میں اسلامی دعوت کو ایسے ہی حواریوں کو تیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسوہ اور قدوہ کی زندہ مثالیں بن سکیں، کیونکہ عقائد اور افکار و نظریات کی ترویج و اشاعت میں عملی قدوہ سب سے زیادہ مؤثر ثابت ہوتا ہے، جب عملی قدوہ کا مجسم وجود ہوتا ہے تو اسے بہ نگاہ عبرت دیکھنا، اثر پذیر ہونا اور اس کی اقتداء کرنا سب کچھ آسان ہوتا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حواریوں کی یہی شان ہے۔ وہ رسول کی سنت پر کاربند ہوتے ہیں اور اس کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں،[3] جیسا کہ حدیث میں وارد ہے: ((مَا مِنْ نَبِیٍّ بَعَثَہُ اللّٰہُ فِيْ أُمَّۃٍ قَبْلِيْ إِلّاَ کَانَ لَہٗ مِنْ أُمَّتِہِ حَوَارِیُّونَ وَ أَصْحَابٌ یَاخُذُوْنَ بِسُنَّتِہِ وَ یَقْتَدُوْنَ بِأَمْرِہِ۔))[4] ’’مجھ سے پہلے اللہ تعالیٰ نے کسی قوم میں کسی نبی کو مبعوث کیا تو اس کی اسی قوم سے اس کے لیے حواری تیار ہوئے اور ایسے اصحاب ملے جو اس نبی کی سنت پر عمل کرتے رہے اور اس کے حکم کی اقتداء کرتے رہے۔‘‘ چونکہ ہر دعوت و تحریک اپنے سفر میں مد و جزر اور ابتلاء و آزمائش سے دوچار ہوتی ہے، اسے اپنوں اور بیگانوں سے نمٹنا پڑتا ہے اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بشدت اہتمام ان حوادث و تغیرات اور مد و جزر کی طرف اسلامی دعوت کے حاملین یعنی مسلمانوں کی توجہ دلائی، فرمایا: ((ثُمَّ إِنَّہَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِہِمْ خُلُوفٌ یَقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَ، وَیَفْعَلُوْنَ مَا لَا یُوْمَرُوْنْ۔))[5] ’’پھر ان (پیروکاروں) کے بعد نااہل آئیں گے وہ کہیں گے وہ بات جو کرتے نہیں، اور کریں گے وہ کام جس کا انھیں حکم نہیں دیا گیا۔‘‘ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |