Maktaba Wahhabi

718 - 1201
پاس بنوقریظہ کی کون خبر لائے گا؟زبیر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: میں، پھر آپ گھوڑے پر سوار ہوئے اور ان کی خبر لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اب دوسری بار کون جائے گا؟ زبیر نے کہا: میں اور پھر خبر لانے چلے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: اب تیسری بار کون جا کر خبر لائے گا؟ تیسری مرتبہ بھی زبیر ہی چلے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لِکُلِّ نِبِیٍّ حَوَارِيٌّ وَ حَوَارِيُّ الزُّبَیْرُ۔)) [1] ’’ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے اورمیرے حواری زبیر ہیں۔‘‘ حواری کا مطلب ہے: میرے خصوصی صحابی اور میرے معاون اس معنی میں عیسیٰ علیہ السلام کے خاص معاونین کو ان کا حواری کہا گیاہے۔ گویا حواری کا معنی ہے مخلص و مددگار۔ اس طرح یہ حدیث زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے لیے ایک عظیم ترین اور منفرد منقبت پر مشتمل ہے، اس لیے جب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو کہتے ہوئے سنا کہ میں حواری کی اولاد ہوں، تو آپ نے کہا: اگر تم زبیر کی اولاد ہو تو ٹھیک ہے ورنہ یہ صحیح نہیں۔[2] عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں عینی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اگر آپ یہ اعتراض کریں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ آپ کے لیے مخلص انصار تھے، پھر زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی تخصیص کا کیا معنی؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات غزوہ احزاب کے موقع پر کہی تھی، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کہا کہ کون ہے جو دشمن کی خبر لائے؟ تو زبیر نے جواب دیا: میں۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ اور سہ بارہ اس مہم کے لیے صحابہ کو دعوت دی تو ہر بار زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سامنے آئے، لہٰذا بلاشبہ زبیر رضی اللہ عنہ کی یہ پیش قدمی اس نازک موقع پر دیگر صحابہ کے بالمقابل ایک اضافی مدد تھی۔[3] غزوۂ احزاب کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے اپنے والدین کی فدائیت کا لفظ استعمال کیا، چنانچہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ جنگ احزاب کے موقع پر مجھے اور عمر بن ابی سلمہ کو عورتوں میں چھوڑ دیا گیا (کیونکہ یہ دونوں حضرات بچے تھے) اچانک دیکھا کہ زبیر رضی اللہ عنہ گھوڑے پر سوار بنوقریظہ کی طرف آجارہے ہیں، دو یا تین مرتبہ ایسا ہوا، پھر جب وہاں سے واپس آئے تو میں نے عرض کیا، اباجان! میں نے آپ کو کئی مرتبہ آتے جاتے دیکھا، انھوں نے کہا: بیٹے کیا واقعی تو نے مجھے دیکھا تھا؟ میں نے عرض کیا جی ہاں، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ((مَنْ یَأْتِ بَنِيْ قُرَیْظَۃَ فَیَأْتِیْنِيْ بِخَبَرِہِمْ)) کون ہے جو بنوقریظہ کی طرف جاکر ان کی اطلاع میرے پاس لاسکے۔ اس لیے میں وہاں گیا، اورجب میں واپس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم (فرط مسرت) میں اپنے والدین کا ایک ساتھ ذکر کرکے فرمایا: ((فِدَاکَ أَبِيْ وَأُمِّي)) میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں۔[4] اس حدیث سے زبیر رضی اللہ عنہ کی فضیلت صاف طور سے ظاہر ہو رہی ہے، بھلا اس سے بڑھ کر شرف و فضل کی بات کیا ہوسکتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے والدین کو آپ پر فدا کریں، یہ فدائیت ان کی قدر و منزلت کی عظمت،
Flag Counter