قرآنی آیات کی تفسیریں بھی معتزلہ کی تفسیروں سے منقول ہیں۔[1] یہی وجہ ہے کہ شاید اسماء و صفات کے باب میں آپ متاخرین شیعہ اور معتزلہ کی کتب میں کم ہی فرق محسوس کریں گے، معتزلی مذہب کی طرح ان کے یہاں بھی عقل ہی مسائل کی اساس ہے اور اس باب میں جن مسائل کے معتزلہ قائل ہیں مثلاً خلق قرآن، آخرت میں مومنوں کا اپنے رب کادیدار کرنا اور انکار صفات وغیرہ مسائل میں متاخرین شیعہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ بلکہ اس باب میں جو اشکلالات معتزلہ پیش کرتے ہیں بالکل انھیں اشکالات کو متاخرین شیعہ بھی پیش کرتے ہیں، ان مسائل میں دونوں میں بس اتنا فرق محسوس کیا جاسکتا ہے کہ شیعہ حضرات نے ایسی روایات کو اپنے ائمہ کی طرف منسوب کردیاہے جن میں نفی صفات اور تعطیل کی صراحت ہے، انھوں نے اپنے ائمہ سے بہت ساری ایسی روایات نقل کی ہیں، جن سے پتا چلتا ہے کہ ان کا مذہب تعطیل تھا، اسی راستہ سے یہ لوگ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ اور محمد الباقر اور جعفر الصادق جیسے علمائے اہل بیت پر یہ تہمت لگاتے ہیں کہ وہ لوگ تعطیل کے قائل تھے، جسے ان کے بعض معاصر شیعہ مشائخ نے اپنی بنیادی دلیل بنا لیاہے، چنانچہ ’’طریقۃ معرفۃ الصفات‘‘ کے زیر عنوان ایک عالم لکھتے ہیں: ’’امیر المومنین کا یہ کلام ((کمال الاخلاص نفی الصفات عنہ)) ’’کمال توحید اللہ سے صفات کی نفی میں ہے‘‘ سننے کے بعد کیا اب بھی صفات الٰہیہ کی تلاش و جستجو کے لیے کوئی میدان بچ رہا ہے اور کیا اس قول کے آگے سرتسلیم خم کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ ہے۔‘‘[2] یہ تو رہا شیعی کتب کے حوالہ جات سے ان کا نظریہ تعطیل۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل خلاف ہے، چنانچہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ اور دیگر ائمہ اہل بیت سے صفات الٰہیہ کا اثبات ثابت ہوتا ہے اور اس سلسلہ میں ان کے اقوال و نظریات سے اہل علم کی کتب بھری پڑی ہیں۔[3] خود شیعی نظریہ تعطیل کے انبار میں بھی بعض ایسی روایات ہیں جنھیں اس حقیقت کا اعتراف ہے، چنانچہ اللہ کے لیے ثابت شدہ اوصاف کی نفی کے ضمن میں ان لوگوں نے ایسی بہت سی روایات کو ذکر کیاہے جن میں اللہ تعالیٰ کو صفات سلبیہ سے متصف کیا گیاہے، بہرحال یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، کوئی بھی شخص جو انبیاء علیہم السلام کے منہج سے بھٹک جائے اور ان کا راستہ چھوڑ دے، اس کی یہی حالت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کے بارے میں اپنے رسولوں کو ’’اثباتِ مفصل‘‘ اور ’’نفی مجمل‘‘ کی تعلیم دے کر مبعوث کیا، اسی لیے قرآن میں اثبات صفات کا بیان تفصیل سے ہے اور نفی مجمل ہے۔[4] اللہ تعالیٰ نے فرمایا: لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ﴿١١﴾ (الشوری: 11) چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ٌۖ کے ذریعہ سے نفی کا بیان نہایت مجمل ہے اور نفی کے وقت قرآن نے تقریباً اکثر مقامات پر یہی اسلوب اختیار کیا ہے، فرمایا: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ﴿٦٥﴾ (مریم: 65) |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |