’’لٹکی ہوئی چوٹیاں اور نرم و نازک ہتھیلیوں اور انگلیوں والی نے جان لیا۔‘‘ پھر آپ نے عمرو کو نیزہ مارا، پٹخ دیا، عمرو بن عاص نے اپنے پیروں سے دفاع کیا، تو اس کی شرم گاہ کھل گئی، علی نے اپنا چہرہ ہٹا لیا اور شدید زخمی کردیے گئے، لوگوں نے کہا: اے امیر المومنین! آپ نے آدمی کو نکل جانے کا موقع دے دیا، آپ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو وہ کون تھا؟ لوگوں نے کہا: نہیں، آپ نے کہا: وہ عمرو بن عاص تھا، اس نے مجھے اپنی شرم گاہ دکھائی تو میں نے اپنا چہرہ پھیر لیا۔[1] اس واقعہ کو ابن کلبی نے اسی طرح ’’الروض الأنف‘‘ میں سہیلی نے بھی ذکر کیا ہے، انھوں نے علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: ’’اس نے اپنی شرم گاہ کے ذریعہ سے مجھ سے بچاؤ کا راستہ نکالا اور مجھے رشتہ کا حوالہ دیا۔‘‘ لکھنے کے بعد لکھا ہے کہ جنگ صفین میں علی کے ساتھ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کا ایک واقعہ اسی طرح ملتا ہے، اس کے بارے میں حارث بن نضر سہمی نے یہ اشعار کہے ہیں جنھیں ابن الکلبی وغیرہ نے روایت کیا ہے: أَ فِیْ کُلِّ یَوْمٍ فَارِسٌ غَیْرُ مُنُتَۃٍ وَ عَوْرَتُہٗ وَسْطَ الْعَجَاجَۃِ بَادِیَۃٍ ’’کیا ہر روز وہ جنگ جاری رکھے گا اور اس کی شرمگاہ لوگو ں کے درمیان کھلی رہے گی۔‘‘ یَکُفُّ لَہَا عَنْہُ عَلِیُّ سِنَانِہٖ وَ یَضْحَکُ مِنْہُ فِی الْخَلَائِ مَعَاوِیَۃُ[2] ’’علی اس کی وجہ سے اپنی تلوار اس سے روکتے رہیں گے اور معاویہ میدان میں ہنستا رہے گا۔‘‘ مذکورہ افتراء اور واضح جھوٹ کا جواب یہ کہ پہلی روایت کا راوی نصر بن مزاحم کوفی جو کہ جنگ صفین کی روداد بیان کر رہا ہے متعصب شیعہ ہے، صحابہ کرام پر افتراء پردازی کرنا اس سے کوئی بعید نہیں ہے۔ علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ اس کے بارے میں لکھتے ہیں: نصر بن مزاحم کوفی سخت متعصب رافضی ہے، محدثین نے اس سے روایت کو ترک کردیا ہے۔ امام عُقیلی اس کے بارے میں فرماتے ہیں: یہ شیعہ ہے، اس کی حدیث میں اضطراب اور بہت ساری غلطیاں ہیں اور ابوخیثمہ کہتے ہیں: بہت بڑا جھوٹا تھا۔[3] ا س کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عجلی نے کہا کہ یہ متعصب رافضی تھا، ثقہ نہیں ہے اور جھوٹ سے مامون نہیں ہے۔[4] رہا دوسری روایت کا راوی ابن کلبی تو اس کا نام ہشام بن محمد بن السائب کلبی ہے، شیعیت کے لیے اس کے تعصب اور غلو پر سب کا اتفاق ہے، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کون اس سے حد یث بیان کرے گا، میرا خیال ہے کہ اس سے کوئی نہیں حدیث بیان کرسکتا۔ دار قطنی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ وہ متروک ہے۔[5] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |