’’میرے ماں باپ قربان ہوں، حسن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مشابہ ہیں، علی کے نہیں۔‘‘ علی رضی اللہ عنہ یہ سن کر ہنس رہے تھے۔ [1] ب:… سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ جو شخص ایک بالشت ہی مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہوا اس نے اسلام کا پھندا اپنے گلے سے اتار پھینکا۔ [2] آپ کے اس قول کے ہوتے ہوئے کیا یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ آپ کے قول وفعل میں تضاد رہا ہوگا حالانکہ آپ اختلاف سے نفرت کرتے تھے اور جماعت کے حریص تھے۔ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’جو شخص ابوبکر اور علی رضی اللہ عنہما کے درمیان صدیقی باز پرس اور مرتضوی اعتذار اور پھر اس کے نتیجہ میں بیعت خلافت پر اتفاق پر غور کرے گا اسے ماننا ہوگا کہ دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کی فضیلت واحترام کے قائل تھے اور باہمی محبت اور تقدس پر دونوں متفق تھے، انسانی طبیعت اگرچہ کبھی کبھی خواہشات سے مغلوب ہوجایا کرتی ہے، لیکن دین پسندی اس کا انکار کرتی ہے۔واللہ الموفق۔‘‘[3] جہاں تک زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے پیچھے رہ جانے کا تعلق ہے تو واضح رہے کہ وہ روایت بسند صحیح ثابت نہیں ہے، بلکہ اس کے بالمقابل ایسی روایات ہیں جو اس قول کی تردید کرتی ہیں اور پہلے ہی مرحلہ میں آپ کی بیعت ثابت کرتی ہیں، انھیں میں سے ایک ابو سعید رضی اللہ عنہ کی گزشتہ حدیث بھی ہے۔ [4] ج:…امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’علی رضی اللہ عنہ سے بسند تو اتر ثابت ہے کہ انھوں نے فرمایا، اس امت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل شخص ابوبکر، پھر عمر رضی اللہ عنہما ہیں، یہ روایت بہت سی سندوں سے ثابت ہے، یہاں تک کہا گیا ہے کہ اس کی تقریباً اَسّی (80) اسناد ہیں اور ایسے ہی آپ سے یہ قول بھی مروی ہے کہ آپ فرماتے تھے: اگر میرے پاس کوئی ایسا آدمی لایاگیا جو ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما پر مجھے فضیلت دیتا ہوگا تو میں اس پر تہمت کی حد نافذ کروں گا ۔‘‘ [5] آپ نے یہ بات کبھی نہیں کہی کہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے زیادہ خلافت کا حق دار ہوں، بلکہ کسی نے بھی کسی خاص فرد کے سلسلہ میں یہ نہیں کہا کہ وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے زیادہ خلافت کا حق دار ہیں۔ خانوادہ ٔ رسول کے ساتھ اختصاصِ خلافت کا وہی شخص قائل ہو سکتا ہے جس میں جاہلیت کے آثار باقی ہوں، خواہ وہ عربی النسل ہو، یا فارسی کیونکہ اہل عرب زمانہ جاہلیت میں سرداروں ہی کے خانوادے کو قیادت کے لیے مقدم کرتے تھے۔ ایسے ہی اہل فارس بھی شاہِ عجم کے خانوادے کو آگے رکھتے تھے، پس خانوادۂ نبوت کے بارے میں بھی ایسی باتیں کسی سے منقول ہیں تو اس کا |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |