Maktaba Wahhabi

301 - 1201
اپنے گھر میں گوشہ نشین ہوگئے، یہاں تک کہ صحابہ آپ کے پاس آئے اور آپ کی بیعت کے لیے بضد ہوگئے۔ 3: تمام مہاجرین وانصار صحابہ اور مدینہ میں رہنے والے دیگر تمام لوگوں نے بالاتفاق آپ کی خلافت پر بیعت کی، اور اس میں اہل حل عقد پیش پیش رہے۔ انھوں نے ہی علی رضی اللہ عنہ کو اس کے لیے مناسب سمجھا اور بیعت پر رضامندی کے لیے انھیں تیار کیا اور اتنے بضد ہوگئے کہ آپ کو مجبوراً قبول کرنا ہی پڑا۔ آپ نے شرپسندوں کی ہنگامہ آرائی اور قاتلین عثمان کے فتنہ سے مرعوب ہوکر خلافت ہرگز قبول نہیں کی، جیساکہ ضعیف اور موضوع روایات میں وارد ہے۔ 4: اس موقع پر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ ہی خلافت کے سب سے زیادہ مستحق تھے، اس کی دلیل یہ ہے کہ پہلی فرصت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نظر انتخاب آپ ہی پر ٹھہری اور وہ اصرار کرتے رہے تاکہ آپ بیعت خلافت کو قبول فرمالیں، حتی کہ انھوں نے نہایت صریح الفاظ میں کہہ دیا کہ آج ہم امامت کے لیے آپ سے زیادہ کسی کو مستحق نہیں پاتے۔ 5۔ خلافت کی اہمیت وعظمت ظاہر ہوتی ہے چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ شہادت عثمان کے فوراً بعد صحابہ نے علی رضی اللہ عنہ کو یہ ذمہ داری سونپنے میں جلدی کی، اور علی رضی اللہ عنہ نے بھی اس بار گراں کو قبول کرنے کی وجہ بھی بتادی کہ اگر اللہ کے دین کو خطرہ لاحق ہونے کا مجھے اندیشہ نہ ہوتا تو میں اس مطالبہ کو ہر گز قبول نہ کرتا۔ [1] 6: خلافت علی کی بیعت کے ضمن میں بعض مؤرخین نے یہ شوشہ چھوڑا ہے کہ خوارج عثمان رضی اللہ عنہ کا سخت محاصرہ کیے ہوئے تھے اور آپ کے قتل کے درپے تھے، انھیں میں سے چند شرپسند مدینہ میں بھی گھوم رہے تھے اور انھوں نے ہی سب سے پہلے علی رضی اللہ عنہ کو بیعت خلافت کے لیے مجبور کیا تھا اور خود سب سے پہلے بیعت بھی کی تھی، اور انھیں کی زور وزبردستی پر مجبوراً طلحہ اور زبیر نے بھی بیعت کی، درحقیقت یہ سب مؤرخین کی قیاس آرائیاں ہیں جن کی کوئی صحیح بنیاد اور معتبر سند نہیں ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ ابو بکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے بعد لوگوں کے سامنے کوئی ایسی چوتھی شخصیت نہیں تھی جو قدر ومنزلت، علم وتقویٰ، دین، اسلام میں سبقت اور جہاد کے اعتبار سے کامل نظرآتی رہی ہو، اس لیے مہاجرین وانصار نے آپ پر اس منصب کو قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالا توآپ نے اس ذمہ داری کو اپنے لیے فرض سمجھا، اور ان صحابہ کی بات مان لی۔ اگر اس بیعت میں تاخیر کی جاتی تو پوری اسلامی ریاست کے کونہ کونہ سے فتنوں اور اختلافات کی لہریں امنڈ آئیں، لہٰذا مسلمانوں کی مصلحت اور ان کا مفاد اسی میں پوشیدہ تھا کہ حالات و ظروف اگرچہ نازک ترین دور سے گزر رہے ہیں پھر بھی علی رضی اللہ عنہ بیعت خلافت کو تسلیم کرلیں، اور مدینہ میں موجود مہاجرین وانصار صحابہ میں سے کوئی بھی اس سے پیچھے نہ رہا، اس مقام پر لوگوں سے غلط فہمی یا بھول یہ ہوگئی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بصرہ جانے سے صحابہ کرام کے تردد اور پیچھے رہ جانے کو ان کی بیعت سے جوڑ دیا، حالانکہ آپ کی بیعت خلافت سے کوئی
Flag Counter