3: ابوالحسن الاشعری فرماتے ہیں: ’’عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد علی رضی اللہ عنہ کی امامت و خلافت کو اہل حل و عقد صحابہ رضی اللہ عنہم کے اجماع کے پیش نظر ہم صحیح مانتے ہیں، اس لیے کہ اس وقت اصحاب شوریٰ کا کوئی فرد آپ کے سوا اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوا، بلکہ سب آپ ہی کے فضل وعدل کے معترف رہے، نیز اپنے پیشرو خلفاء کے عہد میں خود علی رضی اللہ عنہ کی اس منصب سے دستبرداری اپنی جگہ بالکل درست تھی، اس لیے کہ آپ کو معلوم تھا کہ یہ وقت انھیں حضرات کا ہے۔ چنانچہ جب خلافت آپ کے ہاتھوں میں منتقل ہوئی تو آپ نے حق گوئی اور بے باکی کا مظاہرہ کیا، اور اپنے پیشرو خلفاء و ائمہ عدل کی طرح راہ راست پر چلنے اور چلانے میں ذرہ برابر کوتاہی نہیں کی۔ یہ تمام خلفائے راشدین کتاب الٰہی اور سنت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پابند رہے۔ ان چاروں کے عدل و فضل پر پوری امت کا اجماع ہے۔ ( رضی اللہ عنہم )[1] 4: ابونعیم اصفہانی فرماتے ہیں: جب صحابہ میں اختلاف ہوا، تو اسے سلجھانے کی ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوگئی جنھیں ہجرت، کارخیر، دینی غیرت اور اسلامی حمیت میں سبقت تھی، اور جنھیں دین و دنیا میں افضل و برتر ہونے کی وجہ سے پوری امت مسلمہ اپنی ذات پر ترجیح دینے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی تھی۔ امت کا کوئی فرد ان سے معارضہ نہ کرتا تھا۔ مزید برآں اگر کسی معاملہ کا تعلق اس مقدس جماعت سے ہوگیا جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا ہی میں جنت کی بشارت دی تھی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پوری زندگی ان سے راضی رہے، عشرۂ مبشرہ میں سے جو لوگ اس وقت باحیات تھے انھوں نے اختلاف کو ختم کرتے ہوئے خلافت کی ذمہ داری علی رضی اللہ عنہ کو سونپ دی اور چونکہ علم، فضل اور اسلام میں آپ کو سبقت و تقدم حاصل تھا، حق و باطل کی معرکہ آرائیوں میں شریک ہوئے تھے، آپ اللہ اور اس کے رسول کے محبوب ترین تھے اللہ اور اس کے رسول ان کے نزدیک محبوب تھے۔ منافقین کی نگاہوں میں خار، لیکن مومنوں کے منظور نظر تھے، اس لیے اس بات کی کوئی بھی گنجائش نہ تھی کہ امت میں آپ کی نیک نامی اور قدر و منزلت کی برتری کا کوئی انکار کرتا۔ آپ سے قبل خلفائے راشدین کو اس منصب خلافت کے لیے اپنے اوپر مقدم کرنے سے آپ کی قدر و منزلت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی، بلکہ اس سے آپ کی منزلت دوبالا ہوئی کہ آپ کو ان حضرات کی فضیلت و برتری کی معرفت حاصل تھی جن کو آپ نے اپنے اوپر ترجیح دی۔ یہ کوئی نئی بات نہ تھی بلکہ یہ سنت گزشتہ انبیاء و رسولوں میں چلی آرہی تھی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۘ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ اللَّـهُ ۖ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ ۚ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ۗ وَلَوْ شَاءَ اللَّـهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِن بَعْدِهِم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَلَـٰكِنِ اخْتَلَفُوا |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |