Maktaba Wahhabi

313 - 1201
فَمِنْهُم مَّنْ آمَنَ وَمِنْهُم مَّن كَفَرَ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّـهُ مَا اقْتَتَلُوا وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ ﴿٢٥٣﴾ (البقرۃ:253) ’’یہ رسول، ہم نے ان کے بعض کو بعض پر فضیلت دی، ان میں سے کچھ وہ ہیں جن سے اللہ نے کلام کیا اور ان کے بعض کو اس نے درجات میں بلند کیا اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو واضح نشانیاں دیں اور اسے پاک روح کے ساتھ قوت بخشی اور اگر اللہ چاہتا تو جو لوگ ان کے بعد تھے آپس میں نہ لڑتے، اس کے بعد کہ ان کے پاس واضح نشانیاں آ چکیں اور لیکن انھوں نے اختلاف کیا تو ان میں سے کوئی تو وہ تھا جو ایمان لایا اور ان سے کوئی وہ تھا جس نے کفر کیا اور اگر اللہ چاہتا تو وہ آپس میں نہ لڑتے اور لیکن اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔‘‘ پس ایک رسول کو دوسرے پر فضیلت دینے کا یہ مفہوم ہرگز نہیں ہے کہ ایک دوسرے کے مقابل میں ہیچ اور کم تر ہے، تمام انبیاء اوررسول، اللہ تعالیٰ کے چنیدہ اور اس کی مخلوق میں سب سے بہتر ہیں۔ خلاصہ یہ کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے باجماع صحابہ منصب خلافت سنبھالنے کے بعد مسلمانوں کے معاملات کو نہایت عدل وانصاف اور زہد و تقویٰ سے نبھایا، پوری زندگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت و عمل کے پابند رہے، خود ہدایت یافتہ رہے اور لوگوں کو ہدایت کی دعوت دیتے رہے، لوگوں کو روشن شاہراہ اور صراط مستقیم پر لے کر چلے اور شہادت کی موت سے سرفراز ہوئے۔[1] 5: ابومنصوربغدادی فرماتے ہیں: ’’تمام اہل حق و اصحاب عدل اس بات پر متفق ہیں کہ عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد علی رضی اللہ عنہ کا امام و خلیفہ بنایا جانا اپنی جگہ بالکل درست ہے۔‘‘[2] 6: امام زہری فرماتے ہیں: ’’سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کی زندگی کے آخری لمحات تک وفاداری کا ثبوت دیا، ان کی شہادت کے بعد صحابہ میں آپ ہی سب سے افضل اور خلافت کے حق دار تھے، لیکن منصب خلافت پر زبردستی قابض نہیں ہوئے، بلکہ جب بشمول اصحاب شوریٰ تمام لوگوں نے آپ پر بیعت عامہ کرلی تب آپ نے اسے قبول کیا۔‘‘[3] 7: عبدالملک الجوینی فرماتے ہیں: ’’جہاں تک عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم کی امامت کے طریقۂ اثبات اور امامت کے لیے ضروری شرائط پر ان کے اجماع کی بات ہے، تو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کی امامت کے اثبات کا وہی طریقہ رہا جو
Flag Counter