گئی ہے اور جہاں تک معترض کا یہ کہنا ہے کہ مفلوج ہاتھ نے بیعت کا آغاز کیا ، تو اسے صحیح مان لینے کے باوجود یہ دلیل معترض کے حق میں نہیں بلکہ اس کے خلاف ہے، کیونکہ جو ہاتھ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں مفلوج ہوا ہو اس کی سعادت کا تقاضا یہ ہے کہ جہاں وہ ہاتھ پڑے، کام بحسن وخوبی اپنے انجام کو پہنچ جائے، اور ہر تکلیف دہ چیز سے حفاظت ہو جائے۔ بہرحال اللہ کی مرضی اور اس کے فیصلہ وتقدیر کے مطابق بیعت خلافت پایۂ تکمیل کو پہنچی۔[1] جن روایات میں طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما کی مجبوراً بیعت کا ذکر ملتا ہے وہ بلاشبہ باطل ہیں۔[2] اور صحیح روایات، جن میں سے ایک دو کو میں نے ذکر کیا ہے، اس بات پر صراحت سے دلالت کرتی ہیں کہ ان دونوں نے رضامندی سے تمام صحابہ کے ساتھ مل کر بیعت کی، اس پر مستزاد دیگر صحیح روایات بھی موجود ہیں جنھیں حافظ ابن حجر نے احنف بن قیس کی سند سے ذکر کیا ہے۔[3] اور اس میں ہے کہ احنف نے شہادت عثمان کے بعد عائشہ، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا کہ اب کس کے ہاتھ پر بیعت خلافت کی جائے، ان سب نے علی رضی اللہ عنہ پر بیعت کرنے کا مشورہ دیا۔[4] یقینا علی رضی اللہ عنہ کی سبقت الی الاسلام اور فضیلت و رتبہ میں جو بلند مقام حاصل تھا، احکام کتاب وسنت کے جس طرح پابند تھے اور اپنے خطبات و مواعظ میں شرعی احکامات ومنہیات کی تطبیق و تنفیذ پر ڈٹے رہنے کا جس طرح عہد کرتے تھے یہ تمام چیزیں قطعاً اس بات کے لیے مانع تھیں کہ کوئی بھی شخص آپ کو مسلمانوں کی امامت وقیادت سنبھالتے وقت آپ پر طعن وتشنیع کا دروازہ کھولتا۔ اس مقام پر ہم یہ بھی کہیں گے کہ صرف اسی پر خطر موقع پر نہیں، بلکہ عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مسلمانوں کی امامت کے لیے جو لوگ مناسب ترین اور باصلاحیت سمجھے گئے تھے آپ ان میں سب پر فائق تھے، عمر رضی اللہ عنہ نے جو چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی آپ اس میں سے ایک تھے، ان میں چار یعنی عبدالرحمن، سعد، طلحہ، اور زبیر رضی اللہ عنہم بحیثیت اہل شوریٰ کے رکھا تھا، یہ سب علی اور عثمان رضی اللہ عنہما کے حق میں خلافت سے دستبردار ہوگئے تھے، اور ان دونوں کے لیے میدان خالی چھوڑ دیا تھا، گویا اہل شوریٰ کا یہ اجماع ہوچکا تھاکہ اگر عثمان رضی اللہ عنہ نہ ہوتے تو منصب خلافت کے حق دار علی رضی اللہ عنہ تھے۔ پھر جب عثمان رضی اللہ عنہ شہید کردیے گئے، اور باشندگان مدینہ بالخصوص صحابہ نے آپ کو آگے بڑھایا، اور خلافت کے لیے آپ کو ترجیح دی تو آپ ہی خلافت کے مستحق ٹھہرے، کیونکہ اس وقت وہاں تمام اصحاب رسول میں آپ سے زیادہ خلافت کا کوئی مستحق نہ تھا آپ مہاجرین اور سابقین اوّلین میں سے تھے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عم زاد بھائی اور داماد تھے۔ مزید برآں آپ جس صلاحیت و اہلیت کے مالک تھے اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا، بہادری، پیش قدمی، ذہانت اور بے مثال عدالتی فیصلوں کا ملکہ تھا، میدان جنگ میں عزم وہمت کے پہاڑ بن جاتے، حق کے لیے نہایت سخت، اور معاملات پر گہری نظر رکھنے والے تھے پس یہ تمام تر مثالی اوصاف و اسباب مسلمانوں کے اس حساس و نازک ترین دورمیں باتفاق رائے صرف آپ کو مسلمانوں |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |