Maktaba Wahhabi

621 - 1201
جانے والی کتاب ’’الإمامۃ والسیاسۃ‘‘ میں ابن الکواء سے مروی ایک روایت میں یہ بات ملتی ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے خلافت کا دعویٰ کیا تھا، اس میں آیا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ معاویہ طلقاء میں سے ہیں، ان کے باپ نے غزوۂ احزاب میں مدینہ پر حملہ آور ہونے والی تمام جماعتوں کی قیادت کی تھی، بلا کسی شورائیت کے وہ خلافت کے دعوے دار ہو بیٹھے، اگر وہ تم سے سچ کہیں توانھیں خلافت سے ہٹانا حلال ہے اور اگر وہ تم سے جھوٹ کہیں تو تمھارے لیے ان سے بات چیت کرنا حرام ہے۔[1] لیکن حقیقت اس قول کے بالکل مخالف ہے۔ امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ سے یہ بات ہر گز ثابت نہیں، یہ رافضیوں کا من گھڑت کلام ہے، ان شاء اللہ ’’الإمامۃ والسیاسۃ‘‘ نامی کتاب کی حقیقت، اس کی کذب بیانی اور تاریخی حقائق کی تصویر بگاڑنے میں اس کے کردار کو آئندہ صفحات میں مناسب جگہ پر ذکر کروں گا۔ صرف یہی نہیں بلکہ تاریخ وادب کی بہت سے کتب ایسی موضوع اور ضعیف روایات سے بھری پڑی ہیں جو بادشاہت، سرداری اور حکومت طلبی کو معاویہ اور علی کے درمیان اختلاف کا سبب بتاتی ہیں۔[2] صحیح بات یہ ہے کہ دونوں کے اختلاف کا سبب یہ تھا کہ معاویہ اور ان کے ساتھیوں کا خلافت علی پر بیعت کرنا کب واجب ہوتا ہے، قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لینے سے قبل یا قصاص لینے کے بعد؟ معاویہ اور ان کے شامی ساتھیوں کی رائے تھی کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ پہلے قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لیں، پھر وہ سب آپ پر بیعت خلافت کرلیتے ہیں، جب کہ علی رضی اللہ عنہ کے رائے تھی کہ معاویہ اور ان کے ساتھی پہلے بیعت کریں پھر قصاص کا مسئلہ بعد میں دیکھا جائے گا۔ تو صاف طور سے ظاہر ہے کہ اختلافات کا تعلق خلافت سے نہیں بلکہ قصاص سے تھا۔[3] قاضی ابن العربی فرماتے ہیں: ’’اہل شام اور اہل عراق کے درمیان قتال کا سبب دونوں کے موقف کا فرق تھا۔ اہل عراق علی رضی اللہ عنہ کی بیعتِ خلافت کی حمایت میں تھے اور چاہتے تھے کہ آپ کی امامت پر تمام مسلمان پہلے متحد ہوجائیں۔ جب کہ اہل شام کا موقف یہ تھا کہ پہلے قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ پر قابو پایاجائے اور ان سے قصاص لیا جائے۔ یہ لوگ کہتے تھے کہ ہم قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو پناہ دینے والے کے ہاتھ پر بیعت نہیں کریں گے۔‘‘ [4] اور امام الحرمین الجوینی لکھتے ہیں: ’’معاویہ رضی اللہ عنہ نے اگر چہ علی رضی اللہ عنہ سے قتال کیا لیکن ان کی امامت کے کبھی منکر نہ ہوئے اور نہ اپنے لیے اس کا دعویٰ کیا۔ آپ اپنی صواب دید کے بموجب قاتلین عثمان سے قصاص کے طالب تھے، حالانکہ آپ غلطی کررہے تھے۔‘‘ [5]
Flag Counter