Maktaba Wahhabi

1022 - 1201
نے تیار کیا تھا، چنانچہ میں نے کھانا پیش کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گوشت کا ایک جھری دار ٹکڑا لیا اور اسے اپنے دانتوں سے دو حصوں میں کاٹ کر پلیٹ کے ایک کنارے رکھ دیا، پھر فرمایا: اللہ کا نام لے کر کھانا شروع کرو، چنانچہ لوگوں نے خوب شکم سیر ہو کر کھانا تناول کیا، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مجھے برتن میں ان کے ہاتھوں کے رکھنے کی جگہ کے علاوہ کوئی چیز نظر نہیں آتی تھی، میں نے جو کھانا سب کے لیے پیش کیا تھا اسے ایک ہی آدمی کھا جاتا، پھر آپ نے فرمایا: انھیں پانی پلاؤ، چنانچہ میں وہی مٹکا لے کر آیا، سب نے اس سے پانی پیا یہاں تک کہ سب کے سب سیراب ہوگئے، اللہ کی قسم! ان میں کا ہر ایک آدمی دوسرے کی طرح سیراب ہو کر پیتا تھا، پھر کھانے سے فراغت کے بعد جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے گفتگو کرنا چاہی تو ابولہب پہلے ہی بول پڑا کہ تمھارے اس آدمی نے تم سب پر جادو کر دیا، یہ سننا تھا کہ تمام لوگ چلے گئے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان سے گفتگو نہ کرسکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے دن فرمایا کہ اے علی! اس آدمی (ابولہب) نے مجھ سے آگے بڑھ کر جو بات کہی ہے وہ تمھیں معلوم ہے اور یہ بھی جانتے ہو کہ میری ان سے گفتگو ہونے سے قبل وہ لوگ منتشر ہوگئے، اس لیے تم اسی طرح دوبارہ کھانا تیار کرو، پھر انھیں کھانے کی دعوت دو، علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے ایسا ہی کیا، پھر میں نے ان کو اکٹھا بلایا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کھانا لانے کے لیے کہا۔ چنانچہ میں نے کھانا پیش کیا اور جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن قبل کیا تھا آج بھی ویسے ہی کیا، انھوں نے کل کی طرح خوب شکم سیر ہو کر کھانا کھایا، پھر آپ نے فرمایا: انھیں پلاؤ، پھر میں وہی مٹکا لے کر آیا اور سب نے سیراب ہو کر اسے نوش کی، پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ہم کلام ہوئے اور انھیں مخاطب کرکے فرمایا: اے بنوعبدالمطلب کے لوگو! اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرے علم میں کوئی ایسا نوجوان نہیں ہے جو مجھ سے افضل بات لے کر تمھارے پاس آیا ہو، میں تمھارے پاس دنیا اور آخرت کی بھلائی لے کر آیا ہوں، اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ آپ لوگوں کو اللہ کی طرف بلاؤں، پس بتاؤ کہ کون ہے جو اس مہم میں اس شرط پر میری مدد کرے گا کہ وہ میرا بھائی، وصی اور خلیفہ بنے۔ علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ سن کر پوری قوم آپ کے خلاف بپھر گئی اور میں نے کہا: میں ان میں اگرچہ سب سے کم عمر، کیچر بہتی آنکھوں والا، پیٹ کا بھاری، اور باریک پنڈلیوں والا ہوں،[1] پھر بھی میں اس کام پر آپ کا وزیر اور معاون بننے کو تیار ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری گردن پر اپنا ہاتھ رکھا اور فرمایا: ((إِنَّ ہٰذَا اَخِیْ وَوَصِیْ وَخَلِیْفَتِیْ فِیْکُمْ فَاسْمَعُوْا لَہٗ وَ اَطِیْعُوْا۔)) ’’یہ میرا بھائی ہے اور تم میں میرا وصی اور خلیفہ ہے، لہٰذا تم اس کی باتیں سننا اور اطاعت کرنا۔‘‘ اتناسننا تھا کہ پوری قوم کے لوگ ہنستے ہوئے یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے کہ اے ابوطالب! اس نے تمھیں حکم دیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی فرماں برداری کرو۔ دوسرے سیاق بیان میں ہے کہ ان میں سے کسی نے آپ کی بات نہ مانی تو علی رضی اللہ عنہ اٹھے اور کہا: میں، اے
Flag Counter