Maktaba Wahhabi

1023 - 1201
اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: تم بیٹھ جاؤ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی بات قوم کے سامنے پھر دہرائی، لیکن سب خاموش رہے، اس وقت بھی علی رضی اللہ عنہ اٹھے اور کہا: میں اے اللہ کے رسول! اس مرتبہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: بیٹھ جاؤ، تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی بات دہرائی، اس بار بھی کسی نے کوئی جواب نہ دیا، تو علی رضی اللہ عنہ اٹھے اور کہا: میں آپ کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوں، اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم بیٹھ جاؤ، تم تو میرے بھائی ہو۔[1] یہ حدیث سند و متن ہر دور اعتبار سے باطل ہے، سنداً یوں کہ اس میں عبدالغفار بن قاسم اور عبداللہ بن عبدالقدوس نامی دو راوی ہیں، جہاں تک عبدالغفار بن قاسم کی بات ہے تو وہ متروک راوی ہے اور ناقابل استدلال ہے۔ اس کے بارے میں علی بن المدینی فرماتے ہیں کہ ((کَانَ یَضَعُ الْحَدِیْث)) یعنی حدیث گھڑتے تھے۔ اور یحییٰ بن معین فرماتے ہیں: ((لَیْسَ بِشَیْئٍ)) اور عباس بن یحییٰ نے فرمایا: ((لَیْسَ بِشَیْئٍ))امام بخاری نے فرمایا: ((لَیْسَ بِالْقَوِیْ عِنْدَہُمْ)) یعنی علمائے جرح وتعدیل کے نزدیک قوی نہیں ہے۔ ان کے بارے میں ابن حبان فرماتے ہیں کہ ((یُقَلِّبُ الْاَخْبَارَ وَ لَا یَجُوْزُ الْاِحْتِجَاجُ بِہٖ ، تَرَکَہٗ اَحْمَدُ ابْنُ حَنْبَلَ وَ یَحْییٰ بْنُ مُعِیْنٍ۔))’’یہ روایات کو الٹتے پلٹتے تھے، ان سے حجت پکڑنا جائز نہیں، احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین نے انھیں متروک قرار دیا ہے، اور نسائی نے کہا کہ یہ متروک ہیں۔‘‘[2] اسی طرح عبداللہ بن عبدالقدوس بھی اس سے کچھ کم نہیں، یہ بھی تمام علمائے محدثین کے یہاں مجروح راوی ہے، امام نسائی نے اس کے بارے میں فرمایا: ((لَیْسَ بِثِقْۃٍ)) ’’یہ ثقہ نہیں ہے۔‘‘ اور دار قطنی نے کہا کہ ’’ضَعِیْفٌ‘‘ ضعیف ہے۔[3] اور متن کے اعتبار سے بھی اس حدیث کے باطل ہونے کے چند اسباب ہیں: ٭ یہ روایت اس دوسری روایت سے متصادم ہے جس کی صحت و ثبوت پر محدثین متفق ہیں، چنانچہ صحیحین میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ ﴿٢١٤﴾ (الشعرائ:214) اپنے اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور پکارا یا بنی فہر یا بنی عدی ، قریش کے خاندانوں کے نام لے لے کر پکارا۔ قریش نے کہا: یہ کون ہے؟ پھر وہاں سب آکر جمع ہوگئے، جو نہیں پہنچ سکا اس نے اپنا نمائندہ روانہ کیا۔ آپ نے ان سے فرمایا: ((أَرَأَیْتُمْ لَوْ اَخْبَرْتُکُمْ خَیْلًا بِالْوَادِیْ تُرِیْدُ أَنْ تَغَیَّرَ عَلَیْکُمْ أَکُنْتُمْ مُصَدِّقِیْ۔))تمھارا کیا خیال ہے کہ اگر میں تمھیں بتاؤں کہ ایک لشکر اس وادی کے پیچھے سے تم پر حملہ کرنے والا ہے، تو کیا تم میری تصدیق کرو گے؟ ‘‘ انھوں نے کہا ہاں، ہمیں جھوٹ کا آپ سے تجربہ کبھی بھی نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((فَاِنِّیْ نَذِیْرٌ
Flag Counter