Maktaba Wahhabi

1012 - 1201
اور فرمایا: ((عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ مِنْ بَعْدِیْ عَضُّوْا عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ۔))[1] ’’میری اور میرے بعد خلفائے راشدین کی سنت کو تم لازم پکڑلو اور انھیں ڈاڑھ کے دانتوں سے جکڑ لو۔‘‘ اور فرمایا: ((اِقْتَدُوْا بِالَّذِیْنَ مِنْ بَعْدِیْ أَبِیْ بَکْرٍ وَ عُمَرَ۔))[2] ’’میرے بعد جو دونوں ہیں ان کی اقتدا کرو، یعنی ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ۔‘‘ اور فرمایا: ((اِہْدَدَوْا بِہَدْیِ عَمَّارٍ وَ تَمَسَّکُوْا بِعَہْدِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ۔)) [3] ’’عمار کے طریقہ کو اپناؤ اور ابن مسعود کے کردار کو لازم کرلو۔‘‘ یہ ساری روایات کسی معنی میں بھی امامت پر دلالت نہیں کرتیں، بلکہ ان کا مفاد یہ ہے کہ یہ سارے لوگ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ اور آپ کی ہدایت پر تھے۔ اسی طرح یہ احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ کبھی بھی ضلالت پر اجماع نہیں کرسکتے۔[4] ٭ روافض شیعہ، عباس رضی اللہ عنہ [5] اور ان کے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ کو اپنے طعن و تنقید کا ہدف بناتے ہیں اور حسن رضی اللہ عنہ کی اولاد پر یہ تہمت لگاتے ہیں کہ وہ حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد سے حسد رکھتے تھے، بلکہ خود حسین کے بیٹوں میں سے جن کی امامت پر ان کا عقیدہ ہے ان کو چھوڑ کر، زید بن علی[6] اور حسن عسکری کے بھائی ابراہیم [7]وغیرہ بقیہ اولادوں پر طعن و تشنیع کرتے ہیں اور ان صالح نفوس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے اور آپ کا حقیقی محب نہیں مانتے، بلکہ صرف ان لوگوں کو نبی اکرم کا حقیقی محب گردانتے ہیں جن کی انھوں نے تعریف کی ہے اور اپنے عقیدہ و نظریہ کے مطابق ان کی مدح و ستائش کی ہے اور ان کی شان میں کسی طرح کی گستاخی نہیں کی ہے۔[8] ٭ اس حدیث کو فہم صحابہ کے معیار پر تولنے کی ضرورت ہے، چنانچہ انھوں نے لفظ ’’مولیٰ‘‘ یا ’’ولی‘‘ سے محبت، دوستی اور اطاعت ہی کا معنی سمجھا، یہی وجہ رہی کہ اہل بیت کے سردار علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے اپنی محبت و
Flag Counter