اسلوب پر مشتمل ہوتے ہیں اور سامعین کے قلب و دماغ کو مؤثر کرتے ہیں۔ مذکورہ وعظ میں بھی بلیغانہ اسلوب کے چند پہلو قابل توجہ ہیں، مثلاً: الف: استعارہ کا استعمال: چنانچہ آپ نے اپنے قول ’’تم موت کے پنجے میں ہو‘‘ میں موت کو ایک پھاڑ کھانے والے جانور سے تشبیہ دی ہے، جس کے ناخن ہوا کرتے ہیں، پس آپ نے کلام کومؤثر بنانے کے لیے مشبہ بہٖ کو حذف کردیا اور اس کے چند اوصاف و لوازم مثلاً ناخن کے ذکرکو باقی رکھا۔ ب: تصنع سے پاک مقفی و مسجع عبارت، چنانچہ آپ نے فرمایا: ((فَإِنَّ الدُّنْیَا لَا یَدُوْمُ نَعِیْمُہَا، وَلَا تُؤْمَنْ فِجَائُعُہَا، غَرُوْرِ حَائِلٍ وَ سَنَدُ مَائِلٍ۔)) دنیا کی نعمتیں و آسائشیں ہمیشہ رہنے والی نہیں ہیں، اس کے حوادث سے بے فکر و غافل نہیں رہا جاسکتا ایک دھوکا ہے جو بیچ میں حائل ہے اور ایک سہارا ہے جو جھک جانے والا ہے۔ ج: انشائی صیغوں کا استعمال: اس وعظ میں ان صیغوں کو جگہ جگہ دیکھا جاسکتا ہے، مثلاً آپ کا فرمانا کہ ’’کیوں روتے ہو؟‘‘ یہ میت کے اہل و عیال سے ایک استفہام تھا۔ اسی طرح آپ کا یہ کہنا کہ اے اللہ کے بندو! واقعات و حوادث سے نصیحت پکڑو، یہ ایک ندا تھی تمام حاضرین کو۔ مزید برآں آپ کا بار بار یہ خطاب کہ اے لوگو! نصیحت پکڑو، عبرت حاصل کرو چوکنے رہو! فائدہ حاصل کرو، یہ تمام طرز تخاطب امر کا اسلوب لیے ہوئے ہیں اور یہ سب استفہام، ندا، امر انشائی صیغے ہیں۔ د: الفاظ کی تاثیر و استحکام: آپ کی موعظت کا ہر ہر لفظ سراپا تاثیر ہے اس میں کسی اعتبار سے آپ کو کوئی کمی اور خلل نظر نہ آئے گی۔ 3: وعظ کے مشمولات قرآنی تعلیمات پر منحصر اور امت مسلمہ کی رہنمائی کرنے اور اسے قانع بنانے میں قرآنی منہج پر قائم ہیں، چنانچہ آپ کا یہ قول کہ ہر نفس کو ایک ہانکنے والا ہنکا کر محشر کی طرف لے جائے گا اورایک گواہ ہوگا جو اس کے دنیوی عمل کی گواہی دے گا۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی ترجمانی ہے: وَجَاءَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّعَهَا سَائِقٌ وَشَهِيدٌ ﴿٢١﴾ (قٓ:21) ’’اور ہر شخص آئے گا، اس کے ساتھ ایک ہانکنے والا اور ایک گواہی دینے والا ہے۔‘‘ 4: روز قیامت کی ہولناکی سے ڈرانا: جیسا کہ آپ کا یہ فرمان: ’’جبار کی قدرت سے نظام دنیا کو درہم برہم کردینے والی صور کی پھونکیں، قبر سے اٹھایا جانا، پھر محشر میں جمع ہونا اور حساب و کتاب کا موقف جیسے ہولناک حالات تم پر اچانک آپڑنے والے ہیں۔ 5: قائل کرنا: جیسا کہ آپ نے فرمایا: تمھارے سامنے کتنے ایسے مریض ہوتے ہیں جن کے لیے تم شفا کی تلاش میں ہوتے ہو اور اطباء سے علاج دریافت کرتے ہو لیکن تمھاری دوا سے ان کو فائدہ نہیں ہوتا اور تمھارا رونا ان کے لیے بے سود ہوتا ہے۔ آپ نے یہ بات موت کے حصول اور دنیا سے کوچ اور آخرت کی طرف روانگی کا قائل کرنے کے لیے کہی، تاکہ انسان خبردار رہے کہ موت سے چھٹکارا نہیں، نہ ہی اس سے کوئی |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |