Maktaba Wahhabi

419 - 1201
امیرالمومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو وعظ و نصیحت کے لیے صرف جمعہ کے خطبات پراکتفا نہ کیا بلکہ اس کے لیے ہر مناسب موقع کو غنیمت سمجھتے اور وعظ کرتے، چنانچہ ایک مرتبہ ایک جنازہ قبرستان لے جایا گیا اور جب اسے لحد میں اتارا گیا تو اس کے اہل وعیال زور زور سے رونے لگے، آپ نے ان سے پوچھا: کیوں روتے ہو؟ پھر فرمایا: اے لوگو! اگر یہ لوگ اس منظر کو دیکھ لیں جس کا مشاہدہ ان کا مرنے والا کر رہا ہے تو اپنی فکر میں اپنے مرنے والے سے غافل ہوجائیں اور باری باری سب کی وہی منزل ہے، پھر ان میں کوئی باقی نہ بچے گا۔ اے اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اور آخرت کی بھلائی کے لیے محنت کرو، عمل صالح میں جلدی کرو اس سے قبل کہ خواہشات کو دفن کردینے والی اور لذتوں کو کھاجانے والی موت آئے، دنیا کی آسائشیں ہمیشہ رہنے والی نہیں ہیں اور اس کے حوادث سے غافل و بے فکر نہ رہا جائے، وہ ایک دھوکا ہے جو بیچ میں حائل ہے اور ایک سہارا ہے جو جھک جانے والا ہے۔ اے اللہ کے بندو! واقعات و حوادث سے نصیحت پکڑو اوراللہ کی آیات و نشانیوں سے عبرت حاصل کرو، ڈرانے والوں سے چوکنا رہو اور نصیحتوں سے فائدہ حاصل کرو، ایسی زندگی گزارو گویا کہ تم موت کے پنجے میں ہو اور مٹی کا گھر (قبر) تمھیں دبوچ چکا ہے ا ور جبار کی قدرت سے نظام دنیا کو درہم برہم کردینے والی صور کی پھونکیں، قبر سے اٹھایا جانا، پھر محشر میں جمع ہونا اور حساب و کتاب کے موقف جیسے ہولناک حالات تم پر آپڑے ہیں، ہر نفس کو ایک ہانکنے والا ہنکا کر محشر کی طرف لے جائے گا اور ایک گواہ ہوگا جو اس کے دنیوی اعمال کی شہادت دے گا: وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتَابُ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَاءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ﴿٦٩﴾ (الزمر:69) ’’اور زمین اپنے رب کے نور کے ساتھ روشن ہو جائے گی اور لکھا ہوا (سامنے) رکھا جائے گا اور نبی اور گواہ لائے جائیں گے اور ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘ وہ ایسا دن ہوگا جب دنیا کی ساری بستیاں زلزلوں سے تھرّا اٹھیں گی، پکارنے والا پکارے گا، وہ دن اللہ سے ملاقات کرنے اور اس کی پنڈلی کھلنے کا دن ہوگا، اس دن سورج بے نور ہوجائے گا، وحشی جانور ادھر اُدھر بھاگ کر پناہ لینے کی جگہ اکٹھا ہوں گے۔ تمام تر سربستہ راز عیاں ہوجائیں گے، برے اور اوباش لوگ ہلاک ہوجائیں گے اور سب کے دل دہل اٹھیں گے۔[1] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی اس پرمغز نصیحت سے ہم چند اہم اسباب تاثیر کا استنباط کرسکتے ہیں مثلاً : 1: مناسب و برمحل نصیحت، چنانچہ واقعہ بتاتا ہے کہ آپ نے یہ نصیحت اس موقع پر کی جب میت کو قبرستان میں پہنچایا جاچکا تھا اور یہ ایسا موقع ہوتا ہے جب موت اور اخروی زندگی کے حالات کو سننے کے لیے انسان کا دل مستعد رہتا ہے۔ 2: وعظ و نصیحت کا نہایت بلیغ انداز، چنانچہ امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے بیشتر مواعظ نہایت بلیغ
Flag Counter