سامعین کے لیے معنی و مفہوم سمجھنے میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔ 3: متضاد معانی کا تقابل یعنی مثبت جملوں میں خطاب کے ساتھ ساتھ ان کے مقابل منفی جملوں کو بھی استعمال کرنا، کہ اس سے مفہوم خوب واضح اور سامع خوب متاثر ہوجائے، مثلاً آپ کا یہ کہنا کہ ’’دنیا پیٹھ پھیر کر جانے والی ہے، اس نے داغ مفارقت دینے کا اعلان کردیا ہے جب کہ آخرت آگے آرہی ہے اور اپنی پیش قدمی کی اطلاع دے رہی ہے۔‘‘ اسی طرح یہ کہنا کہ ’’میں نہیں جانتا کہ کوئی جنت کا طالب ہو اور سو رہا ہو، یا جہنم سے بھاگنا چاہتاہو اور اسے نیند آئے۔‘‘ 4: خطاب میں قرآن سے اقتباس: مثلاً آپ کا یہ فرمانا کہ ’’سن لو! شیطان تمھیں فقر و محتاجی کے وعدہ کا خوف دلاتا ہے اور فواحش و منکرات کا حکم دیتا ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ تم سے اپنی مغفرت و رضا کا وعدہ کرتا ہے، وہ وسعت والا اور علم والا ہے۔‘‘ آپ کا یہ فرمان دراصل اللہ کے اس فرمان کی ترجمانی ہے: الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُم بِالْفَحْشَاءِ ۖ وَاللَّـهُ يَعِدُكُم مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلًا ۗ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ﴿٢٦٨﴾ (البقرۃ:268) ’’شیطان تمھیں فقر کا ڈراوا دیتا ہے اور تمھیں شرمناک بے حیائی کا حکم دیتا ہے اور اللہ تمھیں اپنی طرف سے بڑی بخشش اور فضل کا وعدہ دیتا ہے اور اللہ وسعت والا، سب کچھ جاننے والاہے۔‘‘ 5: مذکورہ خطبہ کے عناصر کلام الٰہی اور کلام نبوی سے بے حد متاثر ہونے، واقعیت پسند اور انسانی زندگی سے قلبی تعلق ہونے کے عمدہ ترجمان ہیں، ان کے معانی میں گہرائی ہے، شمولیت اور معنویت ہے، الفاظ کے انتخاب اور جملوں کی بناوٹ میں عمدگی، سلیقہ مندی اور ایجاز ہے۔ الفاظ اور معانی کی تعبیر ایسی ہے جیسا کہ کسی وجود کی منظر کشی کی گئی ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہ خطبہ بڑی اہمیت کا حامل ہے، اس لیے کہ اس سے دینی، ادبی اور شخصی خصوصیات سے پردہ اٹھتا ہے، یہ خطبہ اپنے خطیب یعنی امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی باوزن شخصیت کا بہت ہی عمیق و جامع تعارف پیش کرتا ہے۔ یہ خطبہ بتاتا ہے کہ آپ دنیا کی حقیقت، انسانی وجود کے مقصد اور اس کے انجام کے اسلامی تصور سے مکمل آشنا تھے اور ان چیزوں کے بارے میں آپ کس نتیجہ پر پہنچے تھے، نیز یہ با ت آشکارا ہوتی ہے کہ آپ کی پاکیزہ روح اور بے داغ ذہن نے آپ کو کس قدر بالغ نظری اور دوراندیشی سے آراستہ کردیا تھا۔ علاوہ ازیں اس خطبہ سے آپ کی اور بھی عقلی اور بلند روحانی خصوصیات نمایاں ہوتی ہیں جو آپ کے ایمان، تقویٰ، تمسک بالاسلام، اپنے رب سے تعلق اور اس کی قضاء و قدر پر رضامندی کے نتیجہ میں آپ کو مسیر ہوئیں۔ بہرحال ان تمام چیزوں نے مل کر آپ کو نثری ادب کے اتنے بلند مقام پر پہنچایا تھا اور حقیقت میں آپ ادب کی دنیا میں الفاظ و عبارت کے شہ سوار، پیشوا اور کامل امام تھے، جس طرح کہ اپنی رعایا کے لیے عدل پرور، زاہد حاکم، تجربہ کار دانا، قائد اور ایسے جنگی شہ سوار تھے جس سے مقابلہ کے لیے کوئی تیار نہ ہوتا تھا۔[1] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |