شکل و شباہت میں اترے۔[1] پس یہ اتنی عظیم منقبت ہے کہ دنیا سے اس کا موازنہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔ عامر بن صالح بن عبداللہ بن زبیر رحمۃ اللہ علیہ اس فضل و منقبت کو یوں سراہتے ہیں: جَدِّيْ ابنُ عَمَّۃِ أَحْمَدَ وَ وَزِیْرُہُ عِنَّدَ الْبَلَائِ وَ فَارِسُ الشَّقْرَائِ ’’میرے دادا، احمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پھوپھی زاد بھائی، مشکلات کے ان کے مشیر و معاون اور سرخ رنگ گھوڑے کے شہسوار تھے۔‘‘ وَ غَدَاۃَ بَدْرٍ کَانَ أَوَّلُ فَارِسٍ شَہِدَ الْوَغَی فِی اللَّامَۃِ الصَّفْرَائِ ’’بدر کے روز آپ پہلے شہ سوار تھے جو زرد زرہ میں ملبوس میدان کارزار میں کود پڑے۔‘‘ نَزَلَتْ بِسِیْمَاہُ الْمَلَائِکُ نُصْرَۃً بِالْحَوْضِ یَوْمَ تَأَلُّبِ الْأَعْدَائِ [2] ’’دشمنوں کے حملہ والے دن فرشتے ان کی شکل و شباہت میں چشمہ بدر پر (مسلمانوں کے) مددگار بن کر اترے۔‘‘ زبیر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ غزوۂ بدر کے موقع پر عبیدہ بن سعید بن عاص سے میرا سامنا ہوگیا، وہ ہتھیاروں سے بالکل مسلح تھا، صرف اس کی دونوں آنکھیں نظر آرہی تھیں، وہ ابوذات الکرش کی کنیت سے مشہور تھا، اس نے کہا: میں ابوذات الکرش ہوں، میں نے اس پر حملہ کردیا اور اس کی آنکھ میں نیزہ دھنسا دیا اور وہ مرگیا، پھر میں نے اسے اپنے قدموں سے روندا، پھر پوری طاقت کے ساتھ اپنے نیزے کو اس کے جسم سے نکال لیا، اس کی دھار مڑ چکی تھی، اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مانگ لیا تو دے دیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی تو اسے واپس لے لیا، لیکن جب ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو آپ نے اس نیزے کو مانگ لیا، پھر جب آپ کی بھی وفات ہوگئی تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اسے مانگ لیا، اس طرح یکے بعد دیگر خلفائے راشدین کے ہاتھوں منتقل ہوتے ہوئے عثمان اور پھر آل علی رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا، پھر اسے آل علی سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے مانگ لیا اور ان کی شہادت تک یہ نیزہ ان کے پاس رہا۔[3] یہ روایت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی نشانہ بازی میں مہارت کی دلیل ہے، کیونکہ نہایت تنگ جگہ میں اور ایسی حالت میں جب کہ حملہ کرنے کے ساتھ ساتھ خود کو بچانا بھی تھا، آپ اس آدمی کی آنکھ پر ہتھیار چلانے میں صد فیصد کامیاب رہے، اس پر نشانہ سادھنا آسان نہ تھا، کیونکہ اس نے اپنے پورے جسم کو لوہے کے حفاظتی لباس اور ہتھیاروں سے چھپایا ہوا تھا، پھر آپ اس کی ایک آنکھ پر کاری ضرب لگا کر اسے موت کے گھاٹ اتارنے میں کامیاب رہے، ایک ہی ضرب کی یہ موت بتاتی ہے کہ زبیر رضی اللہ عنہ جسمانی اعتبار سے بہت طاقت ور تھے اور نشانہ بازی میں جو مہارت حاصل تھی وہ تو الگ۔[4] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |