Maktaba Wahhabi

924 - 1201
تو ہم بالتحدید وہ مدت اور وقت جان لیں گے جس میں کوفہ کے شیعہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو افضیلت دینے میں اپنے امام یعنی علی رضی اللہ عنہ کے ہم خیال تھے اور یہ بھی جان لیں گے کہ کب سے یہ لوگ علی رضی اللہ عنہ سے الگ ہونے لگے اور آپ کے اس ایمان و عقیدہ سے مخالفت کرنے لگے جس میں آپ اپنے دونوں بھائیوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ساتھیوں، وزیروں اور آپ کی امت پر امت کے پاکیزہ دور کے دونوں خلفاء یعنی ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی افضلیت کا اقرار کرتے تھے اور آپ اس عقیدہ کا اعلان منبر کوفہ سے کرتے تھے۔[1] لیث بن ابوسلیم فرماتے ہیں کہ میں نے شروع اسلامی دور کے شیعہ کو دیکھا ہے وہ ابوبکر و عمر پر کسی کو فضیلت نہ دیتے تھے۔[2] مختصر تحفہ اثنا عشریہ کے مصنف لکھتے ہیں: ’’امیر المو منین علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جو انصار و مہاجرین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہم تھے سب کے سب آپ کے حقوق کو پہچانتے تھے اور افضلیت و احترام میں آپ کو آپ کا مقام دیتے تھے، انھوں نے اصحاب رسول میں آپ کے بھائیوں میں سے کسی کی شان میں گستاخی اور اس کی بے احترامی نہیں کی، چہ جائیکہ انھیں کافر کہیں یا گالیاں دیں۔‘‘[3] لیکن تشیع کا یہ مفہوم اپنی سادگی، شفافیت اورپاکیزگی و معنویت کے ساتھ زیادہ عرصہ تک باقی نہ رہا، بلکہ اس کے اصولوں میں تبدیلی آگئی اور شیعیت کئی خانوں میں تقسیم ہوگئی اور تشیع سر چھپانے کا وہ پردہ بن گیا جس کی آڑ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہر سازش کرنے والا اورحاسد اپنا سر چھپانے لگا۔اسی لیے شیخین پر طعن کرنے والوں کو ہم ’’رافضہ‘‘ کہتے ہیں، کیونکہ وہ ’’تشیع‘‘ کے اوصاف سے متصف نہیں ہیں۔[4] جس شخص کی نگاہ میں شیعہ فرقہ کے اعتقادی ارتقاء کی تاریخ ہے اسے بعض نامور محدثین اور علماء کی جماعت پر شیعہ کا لقب دیکھ کر حیرت میں نہیں پڑنا چاہیے، ممکن ہے تاریخ کے صفحات میں اہل سنت کے کچھ قائدین پر بھی اس لفظ کا اطلاق ہوا ہو، اس لیے کہ سلف کے زمانے میں اس لفظ کا جو مفہوم اور معنی تھا وہ متاخرین شیعہ کے معنی و مفہوم سے مختلف ہے، دونوں ادوار میں یہ لفظ دو معنوں میں مستعمل ہوا ہے، اسی لیے امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ بدعت تشیع سے متہم محدثین کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’بدعت کی دو اقسام ہیں، ایک ہے بدعت صغریٰ، جس کی مثال ہے تشیع کا غلو، یا تشیع غلو۔ یہ بات تابعین اور تبع تابعین میں زیادہ دیکھنے کو ملے گی، باوجودیہ کہ وہ دین دار، متقی اور صداقت کے خوگر تھے، اگر ان کی احادیث رد کردی جائیں تو آثار نبویہ کا ایک مجموعہ ختم ہوجائے گا جو کہ ایک واضح اور بڑا نقصان ہے اور دوسری قسم ہے: بدعت کبریٰ، جس کی مثال کامل رفض اور اس میں غلو پرستی کا عقیدہ ہے اور اس
Flag Counter