Maktaba Wahhabi

224 - 1201
حالت میں میں نے اس کے لیے اللہ سے دعا بھی نہیں کی، لیکن میں نے ایک فتنہ پھیل جانے کے خوف سے اسے قبول کرلیا، امارت میں میرے لیے کوئی آرام نہیں ہے، میں نے ایک گراں بار ذمہ داری کو اپنے گلے میں ڈال لیا ہے، اللہ کی طرف سے قوت وتائید کے بغیر مجھے کوئی قوت نہیں ملنے والی ہے۔ میری خواہش تھی کہ آج میرے اس مقام پر مجھ سے زیادہ قوی کوئی دوسرا ہوتا۔‘‘ بہرحال تمام مہاجرین نے آپ کی معذرت اور خطبہ کو سنا اور تسلیم کیا، ہاں! علی اور زبیر رضی اللہ عنہما کہنے لگے: ہمیں آپ پر قدرے ناراضی اس وجہ سے ہوئی تھی کہ آپ نے مشورہ لینے میں ہمیں پیچھے چھوڑ دیا، لیکن ہم مانتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خلافت کے زیادہ حق دار ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی ہیں۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق غار ہیں، ہمیں ان کی شرافت اور بزرگی کا بخوبی علم ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی ہی میں انھیں لوگوں کی امامت پر مامور کیا تھا۔[1] قیس عبدی کا بیان ہے کہ بصرہ میں جب علی رضی اللہ عنہ خطبہ دے رہے تھے میں وہاں موجود تھا، آپ نے حمد وصلاۃ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا اور کہا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی، پھر مسلمانوں نے طے کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنالیں ، چنانچہ انھوں نے آپ کی خلافت پر بیعت کی ان کی اطاعت کا وعدہ کیا، اور خود کو ان کے حوالہ کر دیا۔ میں نے بھی بیعت کی، عہد کیا اور خود سپردگی کا اقرار کیا، سب کے سب دل سے راضی تھے، میں بھی راضی تھا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تا عمر خیرو بھلائی کے کام کیے اور اس کے لیے محنت مشقت کی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی، اللہ آپ پر رحمت ناز ل کرے۔ آمین۔[2] سچی بات یہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کبھی بھی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کٹ کر نہیں رہے، اور کسی بھی جماعت میں آپ سے الگ نہ ہوئے، مشورہ اور دیگر نظام مملکت میں برابر آپ کے ساتھ رہتے۔ حافظ ابن کثیر اور دیگر کئی محقق علماء کی رائے ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے لیے پہلی بیعت کے چھ مہینے بعد یعنی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد علی رضی اللہ عنہ نے اپنی پہلی بیعت کی تجدید کی تھی اور اس بیعت سے متعلق متعدد صحیح روایات ثابت بھی ہیں اسی دوسری بیعت کی وجہ سے شاید بعض راویوں کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ علی رضی اللہ عنہ نے اس سے پہلے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر بیعت نہ کی تھی اس لیے بیعت اولیٰ کا انکار کردیا، حالانکہ اصولی اعتبار سے کسی واقعہ کے اثبات کو اس کی نفی پر ترجیح حاصل ہوتی ہے۔ [3]
Flag Counter