Maktaba Wahhabi

1025 - 1201
کی ہے۔[1] اسی طرح یہ حدیث کہ ((مَنْ نَاصَبَ عَلِیًّا بِالْخَلَافَۃِ فَہُوَ کَافِرٌ۔)) جس نے خلافت کے معاملہ میں علی سے لڑائی کی وہ کافر ہے۔ سنی کتب و مصادر و مراجع میں اس کا قطعاً کوئی ثبوت نہیں۔[2] کذب بیانی پر مشتمل روایات کے یہ چند نمونہ جات ہیں جو علی رضی اللہ عنہ کے حق میں نامزدگیٔ خلافت اور اختصاص ولایت کے شیعی دلائل و نظریات کے ضعف اور ان کے بے ثباتی کو ظاہر کرتے ہیں، اس کی تائید محقق ابن خلدون کی اس تحریر سے بھی ہوتی ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ روافض جن نصوص و الفاظ سے استدلال کرتے ہیں وہ ایسے نصوص ہیں جن کے صرف وہی ناقل ہیں اور اپنے مذہب و مسلک کے مطابق وہ ان کی تاویلات کرتے رہتے ہیں۔ ماہرین سنت اور مستند ناقلین شریعت یعنی اسلاف کرام کو اس کی خبر تک نہیں، بلکہ ان کی بیشتر روایات موضوع ہیں، یا سنداً مطعون ہیں، یا ان کی تاویلات سے کوسوں دور ہیں۔[3] ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے یہ کہا ہے کہ وہ ساری احادیث جن سے روافض استدلال کرتے ہیں وہ موضوع ہوتی ہیں، جس شخص کو بھی احادیث اور ان کے ناقلین و رجال کے بارے میں معمولی علم ہے وہ اس حقیقت کو اچھی طرح جانتا ہے۔[4] علمائے سنت کو تو چھوڑئیے، خود شیعہ محقق و مولف ابن ابی الحدید کو اس کا اعتراف ہے کہ مسئلہ امامت میں اپنے مذہب کی تائید کے لیے احادیث گھڑنے میں شیعیت کا اثر رہا ہے۔ چنانچہ اس کا کہنا ہے کہ احادیث فضائل کے باب میں جھوٹی روایات وضع کرنے کی بنیاد شیعوں نے رکھی ہے۔ انھوں نے شروع شروع میں اپنے دشمنوں کو زیر کرنے کے لیے اپنے امام کی منقبت و فضیلت میں اور ان کی مذمت میں مختلف جھوٹی احادیث گھڑیں۔ چنانچہ جب بکریہ (بعض سنیوں کی طرف اشارہ ہے) نے دیکھا کہ شیعوں نے اپنے امام کی فضیلت میں جھوٹی احادیث وضع کی ہیں تو انھوں نے اپنے امام (ابوبکر) کی فضیلت میں جھوٹی احادیث وضع کیں اور جب شیعوں نے ’’بکریہ‘‘ کو ایسا کرتے دیکھا تو انھوں نے وضع حدیث کا دائرہ مزید وسیع کردیا، حالانکہ دونوں فریق اگر ایسا نہ کرتے تو بھی دونوں کے فضائل میں اتنی احادیث تھیں جو ان کے لیے کافی تھیں۔ علی رضی اللہ عنہ کے فضائل میں ثابت شدہ اور صحیح روایات تھیں اورابوبکر کے فضائل میں بھی اتنی ٹھوس اور متحقق روایات تھیں کہ کسی تکلّف اور عصبیت کی ضرورت نہ تھی۔[5] باوجودیہ کہ یہ دلائل کمزور ہیں اور ان میں کوئی وزن نہیں، پھر بھی آج ہمیں ایسے شیعہ ملتے ہیں جو مسئلہ امامت میں اپنے عقیدہ کے ثبوت میں ان دلائل کو برابر اپنی تحریروں میں نقل کرتے ہیں اور ان سے استدلال کرتے ہیں، ان کے ایک امام کی بات سنیے جس کے خیال میں اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بعد اپنا خلیفہ نہیں بنایا ہے تو گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ رسالت کا حق ادا نہیں کیا۔[6] ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ ٔ وحی رسول
Flag Counter