اخراجات سے جو کچھ بچتا ہے، اسے دارالخلافہ بھیجا جاتا ہے، گو ریاست کے لیے بیت المال دل کی حیثیت ہے جو متحرک اعضاء اور رگوں میں خون دوڑاتا ہے۔ [1] امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’اور دیکھو تمھارے پاس جو اللہ کا مال جمع ہو، اسے اپنی طرف کے عیال داروں اور بھوکے ننگوں تک پہنچاؤ۔‘‘[2] جیسا کہ میں ذکر کرچکا ہوں کہ اسی بیت المال کی آمدنی کا ایک حصہ خراج ہے، جو کہ مزروعہ زمین سے حاصل کیا جاتا ہے اور یہی خراج ریاست کے سرکاری ملازمین کی تنخواہ کا پہلا بنیادی مصد رہے، تنخواہوں کی تقسیم کے بعد اس سے جو حصہ بچتا ہے اسے فقراء و مساکین میں تقسیم کردیا جاتا ہے، چنانچہ خراج کے بارے میں امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’سب لوگ اسی خراج اور خراج دینے والوں کے سہارے پر جیتے ہیں۔‘‘ آپ نے ’’سب لوگوں‘‘ سے عام سرکاری ملازمین اور مجاہدین کو مراد لیا ہے کہ جن کی زندگی کے ضروری اخراجات خراج کے بغیر پورے نہیں ہوسکتے اور ان کے حالات بہتر نہیں ہوسکتے، اسی لیے آپ آگے کی عبارت میں زمین کو سرمایہ کاری کا ذریعہ بنانے کی نصیحت کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں: ’’اور خراج کی وصولی سے زیادہ زمین کی آبادی کا خیال رکھنا کیونکہ خراج بھی تو زمین کی آبادی ہی سے حاصل ہوسکتا ہے اور جو آباد کیے بغیر خراج چاہتا ہے، وہ ملک کی بربادی اور اللہ کے بندوں کی تباہی کا سامان مہیا کرتا ہے۔ ‘‘ [3] اس طرح زمین کی آبادکاری ریاست کے ذرائع آمدنی میں ایک جدید اضافہ ہے، جس سے تنخواہوں اور دیگر متنوع اخراجات کی تکمیل کی جاسکتی ہے، البتہ یہ اخراجات اس مرکزی مشینری کے اخراجات سے الگ ہوں گے، جن کا باقاعدہ طور سے بیت المال میں حصہ ہے نیز تخمیناً ریاست کے ضرور ی اخراجات کو الگ کرلینے اور بقیہ حصہ کو دارالحکومت بھیج دینے کے بعد مختلف رفاہی امور میں بیت المال کی آمدنی کو خرچ کیا جائے گا۔ چنانچہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’اور جو اس سے بچ جائے اسے ہمارے پاس بھیج دو تاکہ جوضرورت مند ہمارے سامنے ہیں ان میں ہم تقسیم کردیں۔‘‘ [4] اسی طرح ریاست کے اہم ترین اخراجات کی ایک مد نہروں کی کھدائی ہے۔ چنانچہ آپ نے قرظہ بن کعب انصاری کے پاس لکھا کہ حمدو صلاۃ کے بعد! تمھارے ماتحت کچھ ذمیوں نے اپنی زمین میں ایک ایسی نہر پائے |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |