Maktaba Wahhabi

571 - 1201
آپ نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس لکھا: حمد وصلاۃ کے بعد! اپنی جگہ کسی کو نائب بنا دو اور چند ساتھیوں کو لے کر سواد عراق کے علاقہ میں چلے جاؤ، وہاں میرے عمال کے بارے میں لوگوں سے معلومات حاصل کرو اور ان کے کردار و عمل کا جائزہ لو۔[1] اسی طرح سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے تفتیشی عملہ کی خفیہ رپورٹ پر اعتماد کرتے تھے اور گورنرانِ ریاست کو یہ خبر نہ ہوتی تھی کہ کون ہماری رپورٹ بھیج رہا ہے۔ [2] آپ کے مقررکردہ نگران کبھی کبھار گورنر کے ملازمین کی شکل میں اور کبھی عام رعایا کی شکل میں ہوتے۔ کبھی کسی ریاست میں قیام کر جاتے اورکبھی ایک ریاست سے دوسری ریاست میں منتقل بھی ہوتے رہتے، آپ کے پاس تفتیشی عملہ کی خفیہ رپورٹ بطور دلیل موجود ہوتی اور آپ اسی کی روشنی میں گورنروں کے نام ہدایات بھیجا کرتے۔ شاید امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے گورنران کے درمیان بعض لوگوں کی غلط رپورٹ اور بے جا مداخلت ہی کی وجہ سے بعض گورنران نے اپنا منصب چھوڑ دیا، جیسا کہ علی اور جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہما کے درمیان ’’اشتر‘‘ کی مداخلت، اور علی رضی اللہ عنہ ومصقلہ بن ہبیرہ کے درمیان بعض لوگوں کی مداخلت۔ [3] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے گورنروں کے خلاف کسی کی بھی شکایت سننے کے لیے ہمہ وقت اپنا دروازہ کھول رکھا تھا، اگر ان میں سے کسی کی شکایت آتی تو فرماتے: اے اللہ! میں نے ان لوگوں کو اس لیے نہیں حاکم بنایا ہے کہ تیری مخلوق پر ظلم کریں، یا اسے مطلق العنان چھوڑدیں۔ [4] چنانچہ ایک مرتبہ آپ نے اپنے ایک گورنر کے خلاف شکایت سنی اور جب اس پر تہمت ثابت ہوگئی، تو آپ نے اسے قید کردیا، اسے درّے لگائے اور تادیبی کارروائی کی۔ [5] امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ اپنے گورنران کے لیے ہمیشہ خیرخواہ واقع ہوئے تھے، آپ انھیں برابر نصیحت کرتے رہتے، چنا نچہ قیس بن سعد رضی اللہ عنہما کو جب مصر کا گورنر بنایا تو ان کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: ’’ تم مصر جاؤ درآں حالاں کہ تمھارے ساتھ ایک فوج ہو، تمھارے دشمن کی مرعوبیت کے لیے یہ زیادہ مؤثر ہوگا، اور اپنے سابقہ گورنر کی عزت کرنا، جب تم -ان شاء اللہ- وہاں پہنچو تو محسن کے حق میں احسان کرو، تردد کرنے والوں پر سختی کرو، عوام وخواص سب کے ساتھ نرمی برتو، اس لیے کہ نرمی میں برکت ہے۔‘‘ [6] اپنے ایک خط کے ذریعہ سے قیس بن سعد رضی اللہ عنہما کو نصیحت کی کہ ’’ حمدو صلاۃ کے بعد! اموال خراج کی وصولی میں حق کا راستہ اپناؤ، اپنی فوج کے ساتھ خوب عدل وانصاف سے کام لو اور جو تمھارے سامنے ہیں انھیں اللہ کے عطا کردہ علم میں سے تعلیم دیتے رہو۔[7] اسی طرح گورنروں کی تقرری کے سلسلہ میں آپ جو حکومتی فرمان بھیجتے تھے، وہ بھی نصائح اور توجہات پر مشتمل
Flag Counter