Maktaba Wahhabi

641 - 1201
کے ہوتے ہوئے باغیوں کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ اس وقت آپ باغیوں کے ساتھ اس سے زیادہ کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے، کیونکہ وہ سیکڑوں کی تعداد میں تھے۔ مزید برآں ان کے خاندان و رشتہ کے لوگ فوج میں شامل تھے، اگر آپ اس سے زیادہ اور کوئی سختی کرتے تو اس بات کی کوئی ضمانت نہ تھی کہ امت مسلمہ میں فتنہ کی رسی مزید دراز ہو جاتی۔[1] اسی طرح جب آپ اور طلحہ، زبیر اور عائشہ رضی اللہ عنہم کے درمیان قعقاع بن عمرو کی ثالثی پر مصالحت ہوگئی تو آپ نے اسی دن شام کو خطبہ دیا۔ پہلے جاہلیت، اس کی بدبختی اور اس کے گھناؤنے کاموں کا ذکر کیا، پھر اسلام اور اس کے متبعین کی باہمی محبت اور اتحاد کی خوش بختی کا ذکر کیا اور فرمایاکہ اللہ نے اپنے فضل خاص سے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے خلیفہ ابو بکر، پھر عمر اور پھر عثمان پر امت مسلمہ کو متحد کیا، پھر یہ جانکاہ حادثہ پیش آیا جسے کچھ لوگوں یعنی قاتلین عثمان نے امت پر تھوپ دیا، انھوں نے دنیا طلب کی، اور جسے اللہ نے دنیا کی نعمت سے نوازا تھا اور اس پر اپنے فضل کی بارِش کی تھی اس پر حسد کیا، انھوں نے اسلام اور دیگر چیزوں کو پیچھے دھکیل دینا چاہا، اگرچہ اللہ اپنے معاملہ کے لیے کافی ہے۔[2] پھر فرمایا: اے لوگو ! میں کل یہاں سے کوچ کر نے والا ہوں، سب لوگ کوچ کے لیے تیار ہوجاؤ۔ خبردار! ہمارے ساتھ ایسا کوئی شخص ہرگز نہ چلے جو کسی معاملہ میں کسی بھی طرح سے عثمان کے خلاف معاون رہا ہو۔ جاہل اور احمق لوگ بھی خود کو دور ہی رکھیں۔[3] امام ابوبکر با قلانی رحمۃ اللہ علیہ نے قاتلین عثمان پر تنفیذ قصاص کے موضوع پر بحث کی ہے اور حالات کی بحالی تک تنفیذقصاص کی تاخیر کے بارے میں علی رضی اللہ عنہ کا موقف تحریر کرتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار اس طرح کیاہے کہ جب یہ بات ثابت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ ایک کے بدلہ پوری جماعت کو قصاص میں قتل کردینے کے قائل تھے تو تمام قاتلین عثمان پر قصاص نافذ کرنے کے لیے شرعاً ضروری تھاکہ: ٭ نامزد قاتلین کے خلاف دلیل ہو۔ ٭ مقتول کے اولیاء مجلس میں حاضر ہوں اور اپنے باپ یا رشتہ دار کے خون کے بدلہ کا مطالبہ کریں۔ ٭ پھر امام اجتہاد کرتا کہ کہیں قاتلین عثمان کو قصاص میں اجتماعی طور سے قتل کردینا مزید شر و فساد اور قتل وخون ریزی کا سبب تو نہیں بن رہا ہے کہ اس کے نتائج شہادت عثمان جیسے بھیانک یا اس سے بھی فزوں تر شکل میں ظاہر ہوں۔ نیز وہ غو ر کرتے کہ حد قصاص کی تنفیذ کو بحالی امن تک مؤخر کرنا اور معاملہ کی تہ تک پہنچنے کے لیے حق کی جستجو میں لگے رہنا ہی امت کے حق میں نفع بخش ہے یا نہیں؟ اور کیا یہی طرز عمل انھیں انتشار سے بچانے، فساد کو دور کرنے، اور تہمتوں سے پاک صاف رکھنے کا ذریعہ ہوسکتا ہے، یا کچھ اور؟[4]
Flag Counter