Maktaba Wahhabi

642 - 1201
حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ علی رضی اللہ عنہ کو ان کے موقف میں درست قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اللہ سے توفیق کا طالب ہو کر اپنی بات کہہ رہا ہوں۔ مخالفین کا یہ مطالبہ کہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ ، جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کی، زمین میں فساد برپا کیا، اسلام، اسلامی محرمات، امامت، ہجرت، خلافت اور صحابیت وسبقت الی الاسلام کے تقدس کو پامال کیا، ان سے قصاص لینا واجب ہے، تو ان کا یہ مطالبہ درست تھا، علی رضی اللہ عنہ نے ان کے اس مطالبہ کی مخالفت کبھی نہیں کی، اور نہ ہی قاتلین سے برأت ظاہر کرنے میں کبھی پیچھے رہے، لیکن چونکہ وہ بہت بڑی تعداد میں تھے اور آپ کے قابو میں نہ تھے، اس لیے جو چیز آپ کے بس میں نہ تھی، آپ اس کے مکلف نہیں ہوئے، جیسا کہ آپ اور دیگر تمام مسلمان نماز، روزہ اور حج وغیرہ کی طاقت نہ رکھنے کی حالت میں ان فرائض کے مکلف نہیں ہوتے، دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ (البقرہ:286) ’’اللہ کسی جان کو تکلیف نہیں دیتا مگر اس کی گنجائش کے مطابق۔‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِذَا أَمَرْتُکُمْ بِشَئْیٍ فَأْتُوْا مِنْہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ۔)) [1] ’’جب میں تمھیں کسی چیز کا حکم دوں تو اپنی استطاعت کے مطابق اسے بجالاؤ۔‘‘ اگر معاویہ رضی اللہ عنہ پہلی فرصت میں علی رضی اللہ عنہ پر بیعت کرلیتے تو قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے بدلہ لینے میں آپ کو زیادہ طاقت ملتی۔ لہٰذا یہ کہنا پڑتا ہے کہ معاویہ اور علی رضی اللہ عنہما کے اس اختلاف نے مجرمین پر تنفیذ قصاص کی راہ میں علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں کو کمزور کردیا۔اگر یہ بات نہ ہوتی تو بلاشبہ آپ ان سے ضرور بدلہ لیتے، جیسا کہ عبداللہ بن خباب کے قاتلین پر قابو پاتے ہی حد قصاص نافذ کی۔ [2] ابن العربی علی رضی اللہ عنہ کے نظریہ کی ترجمانی اس طرح کرتے ہیں: ’’علی رضی اللہ عنہ کہتے تھے: بغیر حاکم اور بغیر فیصلہ کے کسی طالب حق کو میں یہ موقع نہیں دوں گا کہ وہ اپنے مقابل سے حسب منشا بدلہ لے۔‘‘ [3] امام ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ اس قول کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’یہ بات قطعی طور سے معلوم ہے کہ ان میں لڑائیاں تھیں اور یہ بھی معلوم ہے کہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص کا معاملہ ہی ان کی باہمی آویزش کا اصل سبب تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کا موقف صحیح تھا۔ اس لیے کہ کسی خون کا بدلہ چاہنے والے کا خود فیصلہ کرلینا صحیح نہیں ہے، اسی طرح قاضی پر فیصلہ میں
Flag Counter