لوگ یہی دہراتے رہے، اور ابودجانہ یہ شعر گنگناتے ہوئے نکل پڑے: أَنَا الَّذِيْ عَاہَدَنِيْ خَلِیْلِيْ وَ نَحْنُ بِالسَّفْحِ لَدَی الْنَخِیْلِ ’’مجھ ہی سے میرے خلیل (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) نے کھجوروں کے پاس چٹان پر یہ عہد لیا ہے۔‘‘ أَنْ لَا أَقُوْمَ الدَّہْرَ فِيْ الْکُیُوْلِ اَضْرِبُ بِسَیْفِ اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ[1] ’’کہ میں کبھی بھی پچھلی صف میں نہ کھڑا ہوا اور اللہ و رسول کی تلوار سے وار کروں۔‘‘ پھر دشمنوں میں سے جو بھی سامنے آیا اسے گاجر مولی کی طرح کاٹتے چلے گئے۔ مشرکوں میں ایک ایسا آدمی تھا جو کسی زخمی مسلمان کو دیکھتا تو اس پر مسلح حملہ کردیتا، وہ دھیرے دھیرے ابودجانہ کے قریب ہو رہا تھا، میں نے دونوں کو ایک دوسرے کے قریب ہوتے دیکھا کر اللہ سے دعا کی کہ اللہ ان دونوں کی مڈبھیڑ کرادے، چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے دونوں آمنے سامنے آئے اور ایک ایک وار کا تبادلہ کیا، اس مشرک نے ابودجانہ رضی اللہ عنہ پر وار کیا، لیکن آپ نے اپنی ڈھال سے اسے روک لیا اور اپنی تلوار سے اس مشرک پر پلٹ کر وار کیا اور اسے قتل کردیا، پھر میں نے دیکھا کہ انھوں نے ہند بنت عتبہ کے سر پر تلوار اٹھا کر اسے دوسری طرف موڑ دیا، میں کہنے لگا: اللہ و رسولہ اعلم، اللہ اور اس کے رسول کو اس کی حکمت زیادہ معلوم ہے۔[2] ابواسحاق کا بیان ہے کہ ابودجانہ نے کہا کہ میری نگاہ ایک ایسے آدمی پر پڑی جو لوگوں کو خوب جوش دلا رہا تھا، میں نے اس کا قصد کیا اور تلوار اس کے سر پر لے گیا تب تک اس نے آہ و بکا شروع کردی، میں نے دیکھا تو وہ ایک عورت نکلی، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار کے لیے یہی اعزاز مناسب سمجھا کہ اس سے کسی عورت کو قتل نہ کروں۔[3] ہشام اپنے باپ عروہ سے روایت کرتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے میرے بھانجے! تمھارے دونوں باپ یعنی زبیر، اورابوبکر اس آیت کریمہ کی بشارت کے مستحق رہے: الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّـهِ وَالرَّسُولِ مِن بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ ۚ (آل عمران:172) ’’وہ جنھوں نے اللہ اور رسول کا حکم مانا، اس کے بعد کہ انھیں زخم پہنچا۔‘‘ جب مشرکین معرکۂ احد سے واپس جارہے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ زخم خوردہ تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں یہ لوگ دوبارہ حملہ آور نہ ہوں، آپ نے فرمایا: ((مَنْ یَنْتَدِبْ لِہٰؤُلَائِ فِيْ آثِارِہِمْ حَتَّی یَعْلَمُوْا أَنَّ بِنَا قُوَّۃً۔)) ’’کون ہے ان کا پیچھا کرے گا، تاکہ انھیں یہ احساس باقی رہے کہ ہم ابھی مضبوط ہیں۔‘‘ چنانچہ مشرکین کا پیچھا کرنے والے ستر آدمیوں میں ابوبکر اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنہما بھی تھے، مشرکین کو جب ان لوگوں کے تعاقب کا علم ہوا تو وہ الٹے پاؤں بھاگے اور مسلمان واپس لوٹ آئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: فَانقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ (آل عمران:174) |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |