یَفْتَحُ اللّٰہُ عَلَی یَدَیْہِ، یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ، وَیُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ۔)) کل جھنڈا اسی شخص کے ہاتھ میں ہوگا جو اللہ کے رسول سے محبت کرتا ہے، اور اللہ اور اس کا رسول اسے پسندکرتا ہے، چنانچہ صحابہ نے اس فکر وتمنا میں رات بڑی بے چینی سے گزاری کہ معلوم نہیں کون اس کا حق دار ہوگا، صبح ہوئی سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور ہر ایک اس سرفرازی کے لیے منتظر رہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((أَیْنَ عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ۔))’’علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟‘‘ صحابہ نے بتایا کہ ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے، لیکن انھیں بلایا گیا اور وہ آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دونوں آنکھوں میں لعاب دہن لگادیا اور ان کے لیے دعا فرمائی، جس سے ان کی تکلیف ایسے دُو رہوگئی گویا کبھی تھی ہی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہاتھ میں عَلَمْ دیا۔ علی رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: کیا میں اس وقت تک ان سے قتال کروں جب تک کہ وہ ہماری طرح مسلمان نہ ہو جائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اُنْفُذْ عَلَی رِسْلِکَ حَتَّی تَنْزِلَ بِسَاحَتِہِمْ، ثُمَّ ادْعُہُمْ إِلَی الإِسْلَامِ، وَأَخْبِرْہُمْ بِمَایَجِبُ عَلَیْہِمْ مِنْ حَقِّ اللّٰہِ فِیْہِ، فَوَ اللّٰہِ لِأَنْ یَہْدِيَ اللّٰہُ بِکَ رَجُلًا وَاحِدًا خَیْرٌ لَّکَ مِنْ أَنْ یَّکُوْنَ لَکَ حُمُرُ النَّعَمِ۔))[1] ’’تم اپنی مہم پر اطمینان سے گامزن ہوجاؤ، اور ان سے مقابلہ میں اتر کر انھیں اسلام کی دعوت دو اور انھیں بتاؤ کہ اللہ کا ان پر کیا حق ہے واللہ اگر تمھارے ہاتھ پر ایک آدمی بھی ہدایت پاجائے تو تمھارے لیے بے شمار سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ ‘‘ چنانچہ آپ نے قدم آگے بڑھایا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں خیبر فتح کیا۔ اس غزوہ میں علی رضی اللہ عنہ نے بہادری کے جوہر دکھائے اور یہودیوں کے سورما مرحب سے ٹکرلی، مرحب جب ان اشعار کو پڑھتے ہوئے آگے بڑھا: قَدْعَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّيْ مَرْحَبُ شَاکِی السِّلَاحِ بَطَلٌ مَجَرَّبُ إِذَا الْحُرُوْبُ أَقْبَلَتْ تَلْہَبُ ’’خیبر کو معلوم ہے کہ میں مرحب ہوں، ہتھیار پوش، بہادر اور تجربہ کار! جب جنگ وپیکار شعلہ زن ہو‘‘ اس وقت علی رضی اللہ عنہ جوابًا یہ اشعار پڑھے اور آگے بڑھے۔ أَنَا الَّذِيْ سَمَّتْنِيْ أُمِّيْ حَیْدَرَۃَ کَلَیْثِ غَابَاتٍ کَرِیْہِ الْمَنْظَرَۃَ أَوْ فِیْھِمْ بِالصَّاعِ کَیْلَ السَّنْدَرَۃِ ’’میں وہ شخص ہوں کہ میرا نام میرے ماں نے حیدر (شیر) رکھا ہے، جنگل کے شیر کی طرح خوفناک، انھیں صاع کے بدلہ نیزہ کی ناپ پوری کروں گا۔ ‘‘ پھر آپ نے مرحب کے سرپر زبردست وار کیا،اسے قتل کردیا، اور آپ کے ہاتھوں فتح حاصل ہوئی۔[2] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |