عقیدہ ’’عصمت‘’ کا دعویٰ کیا۔[1] واضح رہے کہ اس مہم کو آگے بڑھانے میں ہشام بن حکم متوفیٰ 179ھ نامی ایک دوسرا شخص بھی شیطان الطاق کا شریک کار رہا۔[2] بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ چند مخصوص لوگوں میں امامت کو محصور کرنے کا عقیدہ کوفہ میں زیادہ رائج ہوا۔[3] جس کے پس پردہ ہشام اور شیطان الطاق کے پیروکاروں کی کوششیں کارفرما رہیں اور امامت کو چند مخصوص تعداد و افراد تک محصور کرنے والے نظریہ کی بنیادیں دوسری صدی ہجری میں شیطان الطاق اور ہشام بن حکم جیسے حبِّ آل بیت کے دعوے داروں کے ہاتھوں پڑ چکی تھیں۔[4] نیز واضح رہے کہ تعداد ائمہ کے بارے میں شیعی نظریات و مسالک مختلف ہیں، چنانچہ ’’مختصر التحفۃ الاثنا عشریۃ‘‘ میں ہے کہ معلوم ہونا چاہیے کہ امامیہ، ائمہ حضرات کی تعداد میں انحصار کے قائل ہیں، لیکن ان کی تعداد کتنی ہے اس کے بارے میں ان میں اختلاف ہے، بعض پانچ، بعض سات، بعض آٹھ، بعض بارہ اور بعض تیرہ کے قائل ہیں۔[5] اسی طرح شیعی مصادر و مراجع میں ان کے اس اختلاف اور متضاد اقوال کی تصویر دیکھی جاسکتی ہے، خواہ وہ اسماعیلیہ کے شیعی مصادر میں سے ’’ناشی الاکبر‘‘ کی کتاب ’’مسائل الإمامہ‘‘ ہو، یا ابوحاتم الرازی کی کتاب ’’الزینۃ‘‘ ہو، یا اسی طرح اثنا عشری شیعہ کے مراجع میں سے الاشعری القمی کی کتاب ’’المقالات و الفرق‘‘ ہو، یا نوبختی کی ’’فرق الشیعہ‘‘ ہو،۔ بہرحال امامت کا مسئلہ اس قوم کے نزدیک کوئی ایسا فرعی مسئلہ نہیں ہے جس میں یہ اختلاف ایک عام بات ہو، بلکہ یہ ان کے نزدیک دین کی اساس اور اس کی پاکیزہ بنیادہے اور جو ان کے عقیدہ کے مطابق ان کے امام پر ایمان نہ لائے وہ کافر ہے، پس اسی عقیدہ کے تحت وہ آپس میں ایک دوسرے کی تکفیر کرتے ہیں، حتیٰ کہ ایک ہی امام کے پیروکار باہم دیگر تکفیر کرتے اور ایک دوسرے کو ملعون گردانتے نظر آتے ہیں۔[6] رہے اثنا عشری شیعہ تو یہ لوگ بعد کے ادوار میں امامت کو بارہ ائمہ میں منحصر ماننے پر متفق ہوگئے، ورنہ بنوہاشم کی پوری نسل نبوی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں اور پھر ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم کے ایام خلافت تک کوئی ایسا فرد نظر نہیں آتا جو بارہ ائمہ کی امامت کا قائل ہو۔[7] یہ عقیدہ تو حسن عسکری کی وفات کے بعد کی پیداوار ہے۔[8] بہرحال ائمہ کی تعداد کو چند افراد میں منحصر ماننا ایک فاسد اور باطل عقیدہ ہے، امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ آپ کی اولاد اور آپ کے پوتے وغیرہ اس سے بالکل بری ہیں۔ چنانچہ معتبر ترین شیعی مصدر نہج البلاغہ میں علی رضی اللہ عنہ کا یہ خطبہ منقول ہے: ’’مجھے چھوڑ دو اور (اس خلافت کے لیے) میرے علاوہ کوئی اور ڈھونڈ لو، ہمارے سامنے ایک ایسا معاملہ ہے جس کے کئی رخ اور کئی رنگ ہیں، جسے نہ دل برداشت کرسکتے ہیں اور نہ عقلیں، انھیں مان سکتیں |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |