ہیں، (دیکھو) افق عالم پر گھٹائیں چھائی ہوئیں ہیں، راستہ پہچاننے میں نہیں آتا، تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر میں تمھاری اس خواہش کو مان لوں تو تمھیں اس راستہ پر لے چلوں گا جو میرے علم میں ہے، اور اس سے متعلق کسی کہنے والے کی بات اور کسی ملامت کرنے والی کی سرزنش پر کان نہیں دھروں گا اور اگر تم میرا پیچھا چھوڑ دو تو پھر جیسے تم ہو ویسا میں ہوں اور ہو سکتا ہے کہ جسے تم اپنا امیر بناؤ اسی کی میں تم سے زیادہ سنوں اور مانوں اور میرا امیر ہونے سے وزیر ہونا بہتر ہے۔‘‘[1] اب آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ اگر ’’امامت‘‘ علی رضی اللہ عنہ کے حق میں شرعاً منصوص ہوتی اور آپ اس کے لیے نامزد ہوتے تو کسی بھی حالت میں آپ کو یہ کہنے کا حق نہ تھا کہ مجھے چھوڑ دو اور میرے علاوہ کسی اور کو ڈھونڈھ لو، نیز یہ کہ ’’میرا تمھارے لیے وزیر رہنا، امیر ہونے سے بہتر ہے۔‘‘ پس آپ کیوں کر انکار کرتے جب کہ حالت یہ تھی کہ لوگ آپ کو چاہتے بھی تھے اور عوام آپ کی بیعت کے لیے حاضر بھی تھی۔[2] ’’نہج البلاغہ‘‘ ہی میں خلافت سے متعلق آپ کا دوسرا کلام نہایت وضاحت اور صراحت کے ساتھ یوں ملتاہے: ’’جن لوگوں نے ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کی بیعت کی تھی انھوں نے میرے ہاتھ پر اسی اصول کے مطابق بیعت کی جس اصول پر وہ ان کی بیعت کرچکے تھے اور اس کی بنا پر جو حاضر ہے اسے پھر نظر ثانی کا حق نہیں اور جو بروقت موجود نہ ہو اسے رد کرنے کا اختیار نہیں اور شوریٰ کا حق صرف مہاجرین اور انصار کو ہے وہ اگر کسی پر متحد ہوجائیں اور اسے خلیفہ سمجھ لیں تو اسی میں اللہ کی رضا اور خوشنودی سمجھی جائے گی۔ اگر کوئی اس کی شخصیت پر اعتراض یا نیا نظریہ اختیار کرتا ہوا الگ ہوجائے تو اسے وہ سب اسی طرف واپس لائیں گے جدھر سے وہ منحرف ہوا ہے اور اگر انکار کرے تو اس سے لڑیں کیونکہ وہ مومنوں کے طریقہ سے ہٹ کر دوسری راہ پر ہولیا ہے اور جدھر وہ پھر گیا ہے اللہ تعالیٰ بھی اسے اسی طرف پھیر دے گا۔‘‘[3] امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے مذکورہ بیان میں چند حقائق کی طرف اشارہ کیا ہے جن پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے: ٭ مہاجرین و انصار جیسے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اصحاب شوریٰ ٹھہرایا اور انھیں کو حل و عقد کا مالک بنایا۔ ٭ کسی بھی ایک شخص پر ان کا اتفاق کرلینا اللہ کی رضا مندی اور حق سبحانہ تعالیٰ کی طرف سے اس انتخاب کی تائید و موافقت کی علامت ہے۔ ٭ ان اصحاب رسول کے زمانہ میں امامت ان کے علاوہ کسی دوسرے کے حق میں نہیں جاسکتی اور نہ ان کے انتخاب کے بغیر کسی کی امامت منعقد ہوسکتی ہے۔ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |