رہے تھے کہ کچھ لوگ آپ کے سجدہ میں گرگئے، آپ نے فرمایا: یہ کیا؟ انھوں نے کہا: ’’آپ ہی تو اللہ ہیں‘‘، چنانچہ آپ نے تین مرتبہ انھیں توبہ کرنے کے لیے کہا، لیکن وہ باز نہ آئے، تیسری مرتبہ آپ نے گڑھے کھدوائے، اس میں خوب آگ دہکائی، پھر اس میں انھیں ڈال دیا۔ ٭ رہی سبابہ یعنی صحابہ پر سب و شتم کرنے والی جماعت تو آپ کو جب اطلاع ملی کہ فلاں شخص ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو گالیاں دیتا ہے تو آپ نے اسے قتل کرنے کا مطالبہ کیا، یہ سن کر وہ قرقیسیاء بھاگ گیا اور آپ کو برا بھلا کہنے لگا، علی رضی اللہ عنہ اپنے امراء و حکام کے ساتھ انتہائی نرم پہلو اختیار کرتے تھے کیونکہ ان پر آپ کو کنٹرول حاصل نہ تھا اور وہ آپ کے مطیع و فرماں بردار نہ تھے۔ ٭ اور جہاں تک مفضلہ یعنی علی رضی اللہ عنہ کو دوسروں پر ترجیح دینے والی جماعت کی بات ہے تو ان کے بارے میں آپ نے اعلان کردیا تھا کہ اگر ابوبکر و عمر پر مجھے فضیلت دیتے ہوئے کوئی پکڑا گیا تو اس پر بہتان تراشی کرنے والے کی حد نافذ کروں گا۔ آپ فرماتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں اسّی(80) سے زائد اسناد سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: اس امت کے نبی کے بعد اس کی سب سے افضل و برگزیدہ شخصیات ابوبکر و عمر ہیں۔[1] ہر چند کہ علی رضی اللہ عنہ کے دور میں رافضی عقائد کا ظہور ہو چکا تھا، لیکن یہ چند افراد تک محدود تھا، جماعت اور فرقوں کی شکل میں اس کا وجود نہ تھا، اس طرح علی رضی اللہ عنہ کے عہد حکومت کے اختتام تک انفرادی طور سے یہ عقائد پائے جاتے تھے۔ ڈاکٹر سعدی الہاشمی نے اپنی کتاب ’’الرواۃ الذین تاثروا بابن سبا‘‘ میں تحقیقی مقالہ بعنوان ’’ابن سبا حقیقۃ لا خیال‘‘ کے حوالہ سے ابن سبا کے عقائد اور اس کے خود ساختہ افکار ونظریات پر مستقل بحث کی ہے اور اس میں ابن سبا کے نظریات و خیالات سے متاثر ہونے والے راویوں کا ذکرکیا ہے، نیز اس کی اہم بدعات مثلاً وصیت رسول بحق علی، وفات نبوی کے بعد امت محمدیہ پر خلافت علی رضی اللہ عنہ کی تنصیص، بزعم خویش اس کا یہ پروپیگنڈا کہ دشمنان علی کی نقاب کشائی کرنے والا، ان کی تکفیر اورسب سے پہلے ان سے اپنی براء ت کرنے والا میں ہوں اور یہ کہ علی رضی اللہ عنہ کی ذات کو سب سے پہلے ربوبیت و الوہیت کا نشانہ اسی نے بنایا، غلو پرست شیعہ فرقوں میں سب سے پہلے اسی نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد رجعت، قیامت کے قریب علی رضی اللہ عنہ کا ’’دابۃ الارض‘‘ ہونا، انھی کے بدست مخلوق کی تخلیق اور رزق کی تقسیم وغیرہ کو تفصیل سے ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ سبائیوں کا عقیدہ ہے کہ ہم مریں گے اور مرنے کے بعد فضا میں اڑیں گے، اسی لیے ہمارا ایک نام ’’طیارۃ‘‘ ہے اسی طرح ان کا ایک گروہ ائمہ کے بارے میں تناسخ ارواح کا قائل ہے اور روح القدس کے ان کے اندر منتقل ہونے کا عقیدہ رکھتا ہے۔ وہ یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہمیں ایسی وحی کی طرف ہدایت ملی ہے جس سے دیگر لوگ بہک گئے ہیں اور ہمیں ایسا علم ملا ہے جو دوسروں پر مخفی رہا ہے، نیز یہ کہ علی رضی اللہ عنہ بادل میں ہیں، بجلی کی آواز ان |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |