کہ وہ ایک آدمی کا گریبان پکڑے ہوئے آئے، وہ ابن السوداء تھا اور علی رضی اللہ عنہ منبر پر تشریف فرما تھے، آپ نے پوچھا: اس کا کیا معاملہ ہے؟ مسیب نے کہا: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھتا ہے۔[1] اور یزید بن وہب کی سند سے مروی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’مَا لِیْ وَ لِہٰذَا الْحَمِیْتِ الْاَسْوَدَ‘‘ (اس کالے کلوٹے کا کیا معاملہ ہے)نیز یہی روایت بسند یزید بن وہب عن سلمہ عن شعبہ عن علی بن ابی طالب مروی ہے۔ اس میں ہے کہ: ’’مَالِیْ وَلِہٰذَا الْحُمَیَتِ الْاَسْوَدِ یَعْنِیْ عَبْدَاللّٰہِ بْنَ سَبَا۔‘‘[2] ’’اس کالے کلوٹے کا کیا معاملہ ہے، اس سے مراد عبداللہ بن سبا تھا۔‘‘ یہ روایات علی رضی اللہ عنہ سے صحیح اسناد سے ثابت ہیں۔[3] اسلامی تاریخ کے مؤرخین، نیز فرقوں اور عقائد کے مؤلفین کا بیان ہے کہ جب ابن سبا نے علی رضی اللہ عنہ کی ذات کو ربوبیت سے متصف کیا تو آپ نے اسے اور اس کے معتقدین کو آگ میں جلا دیا۔[4] علامہ جرجانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: سبائی روافض عبداللہ بن سبا کی طرف منسوب ہیں، روافض میں سب سے پہلے اس نے کفر کا ارتکاب کیا اور کہا کہ علی، رب العالمین ہیں، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے اسے اور اس کے ماننے والوں کو آگ میں جلا دیا۔[5] سبائیوں پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ ملطی لکھتے ہیں کہ سبائی عبداللہ بن سبا کے پیروکاروں کو کہتے ہیں، انھوں نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا: بس آپ، آپ! آپ نے کہا: میں کون؟ انھوں نے کہا: الخالق الباری، پھر آپ نے ان سے توبہ کروائی، لیکن یہ لوگ باز نہ آئے، آپ نے ان کے لیے کافی آگ جلوائی اور یہ شعر گنگناتے ہوئے انھیں جلا دیا: اَجَّجْتُ نَارِیْ وَ دَعَوْتُ قُنْبَرًا لَمَّا رَاَیْتُ الْاَمْرَ اَمْرًا مُنْکَرًا ’’جب میں نے دیکھا کہ یہ امر منکر ہے تو میں نے قنبر کو بلایا اور اپنی آگ بھڑکا دی۔‘‘ بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ آپ نے ابن سبا کو آگ میں نہیں جلایا بلکہ اسے مدائن جلاوطن کردیا، پھر جب آپ کی وفات ہوگئی ابن سبا یہ دعویٰ کیا کہ علی فوت نہیں ہوئے ہیں اور آپ کی موت پر تعزیت کا اظہار کرنے والوں سے کہا: اگر تم لوگ ان کے دماغ کو ستر تھیلیوں میں لاؤ پھر بھی ہم ان کی موت کو ماننے والے نہیں۔[6] لیکن پہلا قول ہی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے، کیونکہ صحیح بخاری میں عکرمہ سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ زندیق لوگ پکڑ کر لائے گئے تو آپ نے انھیں آگ میں جلا دیا اور جب ابن عباس رضی اللہ عنہما کو اس کی خبر ملی تو آپ نے فرمایا: اگر ان کی جگہ میں ہوتا تو انھیں آگ سے نہ جلاتا، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((لَا تُعَذِّبُوْا بِعَذَابِ اللّٰہِ)) اللہ کے عذاب سے دوسروں کو عذاب نہ دو، بلکہ میں انھیں قتل کرتا، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |