کو رواج دینے کے لیے مسلمانوں کے شہروں میں گھومنے لگا۔ مؤرخ طبری سے اس کی تفصیل اس طرح مروی ہے: ’’عبداللہ بن سبا صنعاء کا باشندہ ایک یہودی تھا۔ اس کی ماں کا نام سوداء تھا، عثمان کے زمانہ میں اسلام لایا، پھر مسلمانوں کے شہروں میں انھیں گمراہ کرنے کے لیے گھومنے لگا، پہلے حجاز پھر بصرہ، پھر کوفہ، پھر شام گیا۔ اہل شام میں اسے کہیں کوئی کامیابی نہ ملی، انھوں نے اسے بھگا دیا، وہ مصر پہنچا اور وہیں سکونت اختیار کرلی، پھر ان میں یہ بات رکھی کہ عجیب بات ہے لوگ عیسیٰ ( علیہ السلام ) کی رجعت پر ایمان تو رکھتے ہیں لیکن نبی اسلام کی رجعت ماننے کے لیے تیار نہیں، جب کہ اللہ کا ارشاد ہے: إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَىٰ مَعَادٍ ۚ (القصص: 85) ’’بے شک جس نے تجھ پر یہ قرآن فرض کیا ہے وہ ضرور تجھے ایک لوٹنے کی جگہ کی طرف واپس لانے والا ہے۔‘‘ لہٰذا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) عیسیٰ ( علیہ السلام ) سے زیادہ رجعت کے مستحق ہیں، چنانچہ اس کی اس بات کی پذیرائی ہوئی، اس نے عقیدۂ رجعت کا شوشہ چھوڑا اور سب نے اس پر غور و خوض کیا، اس کے بعد اس نے ان لوگوں سے کہا: ہزاروں انبیاء گزر چکے ہیں اور ہر نبی کاکوئی وصی ہوا کرتا تھا، علی محمد کے وصی ہیں۔ پھر کہا: محمد خاتم الانبیاء ہیں اور علی خاتم الاوصیاء ہیں۔ بھلا اس شخص سے ظالم کون ہوسکتاہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کو نافذ نہ کرے،رسول کے وصی پر چڑھ دوڑے اور امت کے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لے، پھر صراحت سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی کے زندہ ہوتے ہوئے عثمان نے خلافت پر ناحق قبضہ کرلیا ہے، آپ لوگ اس معاملے کو لے کر اٹھیں، اسے آگے بڑھائیں، اپنے امراء و حکام کو اعتراضات اور طعن و تشنیع کا نشانہ بنائیں، امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کا مظاہرہ کریں، عوام آپ کی طرف جھک جائے گی، پھر اس نے اپنے کارندوں کو دوسرے شہروں میں پھیلا دیا اورجو لوگ اس کے خیالات و نظریات سے بگڑ چکے تھے ان سے خط و کتابت کی، مراسلات ہوئے اور پھر خفیہ طور سے وہ سب اپنی رائے پر متفق ہوئے۔‘‘[1] اس طرح رافضی عقیدہ کا آغاز ہوا اور مسلسل ابن سبا کے یہ خود ساختہ عقائد گمراہوں اور بھٹکے ہوئے انسانوں کے خون اور دل و دماغ میں گردش کرتے رہے، یہاں تک کہ اس کا بدترین نتیجہ اس بگڑی ہوئی مختصر سی جماعت کے ہاتھوں خلیفہ راشد عثمان ذو النورین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی شکل میں ظاہر ہوا اور علی رضی اللہ عنہ کا زمانہ آتے آتے یہ عقائد دل و دماغ کی سرحدوں کو پار کرکے میدان عمل میں نمودار ہونے لگے اور جب علی رضی اللہ عنہ کو ان کا علم ہوا تو آپ نے سختی سے اس کی مخالفت کی اور ان سے اپنی براء ت کا اعلان کیا، چنانچہ بسند صحیح علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ابن عساکر عمار الدہنی سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: میں نے ابوطفیل کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے مسیب بن لجبہ کو دیکھا |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |