Maktaba Wahhabi

897 - 1201
اور ہم بھی مرد ہیں۔‘‘ لہٰذا آپ کے اس قول کا موقع و محل بھی دیکھا جائے تاکہ تطبیق میں الجھاؤ نہ ہو، چلو ٹھیک ہے کہ وہ بھی مرد تھے، عالم تھے، اور مجتہد تھے، لیکن کیا تم بھی ان چیزوں میں انھیں کی طرح ہو؟ 2۔صحابہ کا منہج قرآن و سنت سے براہ راست استفادہ: آج کے اس دور میں جب کہ صحابۂ کرام کا منہج انسان کے درمیان سے عنقا ہو چکا ہے، ہمارے بعض حضرات نے ان کے منہج عمل کی تحدید شرع کردی ہے، مسائل و احکام کے استنباط کے لیے راست طور سے قرآن اور سنت کو استعمال کرتے ہیں اور علمائے اسلام کی شرعی تصریحات و خیالات سے قطعاً استفادہ نہیں کرتے، وہ کہتے ہیں کہ بس ہمارے لیے قرآن و سنت کے ظواہر کافی ہیں، وفات شدگان علمائے دین کی فہم و تشریحات کی ہمیں ضرورت نہیں ہے، وہ دونوں صاف چشمۂ آب حیات ہیں، انھیں ہم کسی اور چیز سے گدلا نہیں کریں گے حالانکہ یہاں ان کا نشانہ خطا کرگیا ہے، کیونکہ قرآن و سنت سے راست طور سے استفادہ کے لیے بھی کچھ حدود و قیود ہیں، اس لیے ہر مسلمان کے لیے قرآن و سنت سے راست طور سے استفادہ کی نوعیت یہ ہونا چاہیے کہ وہ ان سے عقائد و اخلاق اور عبرت و مواعظ کے اصول سیکھے، یہ ایسی ہدایات ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح واضح انداز میں پیش کیا ہے جنھیں سمجھنے کے لیے قرآنی زبان و لغت کا جاننے والا کچھ بھی دِقت محسوس نہیں کرے گا اور جہاں تک عقائد و احکام کی باریکیوں سے معرفت کی بات ہے تو اس کا دائرہ اوّل الذکر مباحث سے بہرحال تنگ ہے اور یہ صرف باصلاحیت اور ماہرین فن کے لیے خاص ہے، یعنی ایسے باصلاحیت اور ماہرین جن کا دامن علوم لغت، علوم اصول اور علوم حدیث سے اس طرح بھرا ہو کہ وسعت استنباط، حسن فہم اور صحیح نتیجہ اخذ کرنے پر انھیں عبور حاصل ہو۔ متشابہات اور پیچیدہ مسائل میں وہ الجھن اور لغزشوں میں نہ واقع ہوں، علم وحکمت پر مبنی اسی تفریق کے واضح خطوط پر صحابہ کرام نے عمل کیا، ان کے پاس مسائل آتے تھے اور حوادث و واقعات پیش ہوتے تھے پھر یہ لوگ انتہائی باریک بینی سے ان کا جائزہ لیتے تھے، اگر ان مسائل کا تعلق پہلی قسم سے ہوتا تو نہایت آسانی سے اسے سمجھتے اور سمجھاتے اور اگر ان کا تعلق دوسری قسم سے ہوتا تو جرأت کا مظاہرہ نہ کرتے، بلکہ توقف کرتے، اپنے علماء و فقہاء سے پوچھتے اور سمجھتے، لہٰذا یہی منہج قابل اتباع ہے اور یہی عقل و حکمت کا منہج ہے، جو جمود و تعطل سے بچاتا ہے اور فکری انتشار و بے اطمینانی سے محفوظ رکھتاہے۔ بغیر معلّم کے ایسے بعض ناقص فقیہوں کی فقاہت کے بڑے بُرے اور خطرناک اثرات سامنے آتے ہیں، سب سے خطرناک بات تو یہ سامنے آتی ہے کہ مختلف علوم و فنون میں اسلاف کے علمی ذخائر سے ان لوگوں کا اعتماد اٹھ جاتا ہے، علمائے دین پر زبان دارزی معمولی چیز ہوجاتی ہے، نصوص شرعیہ کا مفہوم متعین کرنے میں حرفیت پسندی غالب آجاتی ہے، بے محابا فتاوے صادر کرنے کی جرأت بڑھ جاتی ہے اور انتہا پسند افکار کو ترجیح دی جانے لگتی ہے۔ لیکن کیا علم انھیں چیزوں کا نام ہے؟ نہیں، بلکہ اسلام نے ہمیں علم کے کچھ آداب و ابواب بتائے ہیں، پس نیک بخت وہی ہے جو ان آداب سے آراستہ ہو اور انھیں راستوں سے علم کے دروازے کھٹکھٹائے، تاریخ کے تمام
Flag Counter