Maktaba Wahhabi

898 - 1201
ادوار میں ہمیں کوئی ایک فرد بھی نظر نہیں آتا جس نے علم و تعلم کے پہلے ہی مرحلہ میں راست طور سے قرآن و سنت کی طرف رجوع کرکے احکامات کو مستنبط کرنا شروع کردیا ہو اور اپنے متقدمین علماء کے اقوال و تصریحات کو یکسر نظر انداز کردیا ہو، یا اس پر بعدمیں نگاہ ڈالی ہو، ہمیں کوئی نہیں ملتا، ہاں اگر ملتے ہیں تو صرف وہ گنوار جاہل، فقہ و بصیرت سے اندھے اور فقہاء سے کنارہ کش رہنے والے خوارج، یا ان کے افکار و نظریات سے متاثرہ دیگر لوگ۔[1] اپنے سے پیشتر اہل علم کے آراء و اقوال اور ان کے فہم و بصیرت کو نظرانداز کرکے راست طور سے فقط کتب پر اعتماد کرتے ہوئے ان سے علم سیکھنے والوں کے بارے میں علمائے متقدمین نے کافی زجر و توبیخ کا موقف اختیار کیا ہے، اس لیے کہ اس سے تحریف و تصحیف، احکام میں ردو بدل، اللہ پر بے جا بہتان اور حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنے کا دروازہ کھلتا ہے۔ علامہ ابن جماعۃ رحمۃ اللہ علیہ علم و اخلاق کے معلّم کے انتخاب کے لیے طالب علم کو چند آداب سکھاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ طالب علم کی پوری کوشش ہو کہ اس کا استاد علوم شرعیہ کی بہم معلومات رکھتا ہو اور اپنے دور کے علماء و مشائخ کی صحبت اور بحث و تحقیق کا عادی ہو، اس کا استاد ایسا نہ ہو کہ اس نے فقط کتب کی ورق گردانی پر اکتفا کیا ہو، اور ماہرین علمائے دین کی صحبت سے ناواقف ہو۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ جس نے فقط کتب کی ورق گردانی سے فقہ و معرفت حاصل کی اس نے احکام کو ضائع کردیا اور بعض علماء کہتے تھے کہ سب سے بڑی مصیبت صرف کتب پر اعتماد کرناہے، یعنی جو لوگ فقط کتب سے علم حاصل کرنے پر بس کرتے ہیں کسی ماہر استاد کی طرف رجوع نہیں کرتے۔[2] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے: مَنْ یَاْخُذِ الْعِلْمَ عَنْ شَیْخٍ مُشَافَہَۃً یَکُنْ مِنَ الزَّیْغِ وَ التَّصْحِیْفِ فِیْ حُرُمٍ ’’جو شخص بزرگ علمائے دین سے رو برو ہو کر علم حاصل کرتا ہے وہ بہکنے اور غلط تعلیم و تعلم سے محفوظ رہتا ہے۔‘‘ وَمَنْ یَکُنْ آخِذًا لِلْعِلْمٍ مِنْ صُحُفٍ فَعِلْمُہٗ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ کَالْعَدْمِ ’’اور جو شخص فقط کتب کی ورق گردانی سے علم سیکھتا ہے تو اہل علم کے نزدیک اس کا علم نہ کے برابر ہے۔‘‘ بعض علمائے سلف کا قول ہے: ’’جس نے بغیر استاد کے قرآن سیکھا ہو اس کو قرآن نہ سناؤ اور نہ کتابی علماء سے علم حاصل کرو۔‘‘[3] امام ابوزرعہ فرماتے ہیں: ’’کتابی عالم لوگوں کو فتویٰ نہ دے اور نہ انھیں قرآن پڑھائے۔‘‘[4]
Flag Counter