جانے لگے تو عمرو رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا: علی رضی اللہ عنہ کے پاس مصحف بھیج کر انھیں اللہ کی کتاب کی طرف بلائیں، وہ آپ کی اس پیش کش کا انکار نہیں کریں گے ،پھر ایک آدمی مصحف لے کر علی رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور کہا: ہمارے اور آپ کے درمیان اللہ کی کتاب سے فیصلہ ہوناچاہیے، اللہ فرماتا ہے: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يُدْعَوْنَ إِلَىٰ كِتَابِ اللَّـهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ يَتَوَلَّىٰ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ وَهُم مُّعْرِضُونَ ﴿٢٣﴾ (آل عمران:23) ’’کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنھیں کتاب میں سے ایک حصہ دیا گیا، انھیں اللہ کی کتاب کی طرف بلایا جاتا ہے، تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے، پھر ان میں سے ایک گروہ منہ پھیر لیتا ہے، اس حال میں کہ وہ منہ موڑنے والے ہوتے ہیں۔‘‘ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیوں نہیں، میں تو اسے پہلے تسلیم کرنے کے لیے تیار ہوں، تب تک وہاں جو قراء موجود تھے اور بعدمیں خارجی ہوگئے انھوں نے اپنی گردنوں پر اپنی تلواروں کو رکھ لیا اور کہا: اے امیر المومنین! ہم ان کے پاس کیوں نہ چلیں، تاکہ اللہ ہمارے اوران کے درمیان فیصلہ کردے؟ سہل بن حنیف انصاری رضی اللہ عنہ اٹھے اور کہا: اے لوگو! اپنے کو معتوب کرو، ہم صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور جب مشرکین اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان عہدنامہ صلح تیار ہو رہا تھا تب ہم لڑنا چاہتے تو لڑ سکتے تھے، پھر آپ نے انھیں حدیبیہ کی صلح اس پر عمر رضی اللہ عنہ کے اعتراض اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۂ فتح کے نزول کی تفصیل سنائی۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اے لوگو! یہ فتح ہی ہے، تب انھوں نے معاملہ کی نوعیت سمجھی اور خود واپس ہوئے اور دوسرے لوگ بھی لوٹ گئے۔[1] جو لوگ مسلمانوں کے درمیان جنگ جاری رکھنے کے خواہاں تھے، سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ نے ان سے اپنی ناپسندیدگی اور غیر اطمینانی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ’’اے لوگو! تم لوگ اپنی فکر و رائے پر نازاں مت ہو۔‘‘[2] پھر آپ نے بتایا کہ گفتگو اور مصالحت سے بہتر کوئی چیز نہیں، اس کے علاوہ جو کچھ ہے ایسا فتنہ ہے جس کے نتائج نامعلوم ہیں، آپ نے فرمایا: جب ہم نے کسی مشکل کام کے لیے اپنی تلواروں کو اپنے کندھوں پر رکھا تو صورت حال آسان ہوگئی اور ہم نے مشکل حل کرلی، لیکن اس جنگ کا کچھ عجیب حال ہے، اس میں ہم (فتنہ کے) ایک کونا کو بند کرتے ہیں، تو دوسرا کھل جاتاہے، ہم نہیں جانتے کہ ہمیں کیا تدبیر اختیار کرنا چاہیے۔[3] ان صحیح روایات میں فتنہ کی طرف بلانے والوں اور صحابہ سے بغض رکھنے والوں کی تردید ہے کہ جو لوگ جھوٹی روایات اور جھوٹے اشعار خود گھڑتے ہیں اور انھیں معرکۂ صفین میں شریک ہونے والے نامور صحابہ و تابعین کی طرف منسوب کردیتے ہیں، تاکہ انھیں اس جنگ کے لیے متحمس دکھا کر مسلمانوں کے دلوں میں بغض اور کدورتیں |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |