Maktaba Wahhabi

757 - 1201
اور ہمارے سامنے اس واقعہ سے متعلق گمراہ کن اور حقیقت کو جھوٹ میں تبدیل کردینے والی روایات کا انبار چھوڑ دیا، یہ ایسی روایات ہیں جو باعث شرف و فضیلت چیز یعنی قرآن کو فصیل مان کر مسلمانوں کے خون کی حفاطت کے اعلان کو جرم، سازش اور حیلہ جیسے گھناؤنے کردار میں تبدیل کرتی ہیں۔[1] ان سبائیوں نے علی رضی اللہ عنہ کی طرف ایسی جھوٹی اور بے ہودہ باتوں کو منسوب کردیا جو حقیقت کے خلاف اور صحیح روایت سے متصادم ہیں، مثلاً یہ کہ علی رضی اللہ عنہ نے مصحف اٹھانے کی خبر سن کر کہا: انھوں نے نہ اٹھایا ہے، نہ اٹھائیں گے، اور نہ اس میں جو کچھ ہے اس پر عمل کریں گے اور اگر اٹھایا ہے تو ہوشیار رہیں تمھیں دھوکا میں ڈالنا مقصد ہے، وہ ایک جنگی چال اور منافقت ہے۔[2]ان کی دشنام طرازیوں میں سے یہ تہمت بھی ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو مصاحف اٹھانے کا مشورہ ’’ابن العاہرۃ‘‘نے دیا تھا،[3]اتنا ہی نہیں بلکہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے خلاف بہت زور وشور سے خلاف حقیقت پروپیگنڈا کیا، یہی وجہ ہے کہ اسلامی تاریخ کی آپ کوئی بھی کتاب اٹھائیں تو اس میں اس مقام پر عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی شان میں ضرور نازیبا کلمات ملیں گے اور دشمنان صحابہ کی انھیں من گھڑت روایات جن کو طبری اور ابن الاثیر وغیرہ نے نقل کیا ہے کی بنا پرآپ کو دھوکہ باز اور چالباز ثابت کیا گیا ہوگا، جس کی وجہ سے دورحاضر کے مؤرخین میں سے حسن ابراہیم حسن ’’تاریخ الإسلام‘‘ میں، محمد خضرمی ’’تاریخ الدولۃ الأمویۃ‘‘ میں، عبدالوہاب النجار ’’تاریخ الخلفاء الراشدین‘‘ میں اوران کے علاوہ بہت سارے لوگ اس غلطی سے نہ بچ سکے اور نتیجتاً روشن تاریخی حقائق کی شکل بگڑتی ہی چلی گئی، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ابومخنف کی روایت یہ مفروضہ قائم کر رہی ہے کہ جب اہل شام نے علی رضی اللہ عنہ کو قرآن کے متعلق بطورِ فیصل ماننے کا مشورہ دیا تو آپ نے اسے ماننے سے انکار کردیا، پھر وہ قراء اور علماء جو بعد میں خارجی ہوگئے، کے دباؤ میں آکر اہل شام کا مشورہ مان لیا۔[4] ایسی روایت کے ناقابل اعتبار ہونے کے لیے بس یہی کافی ہے کہ اس کاراوی ابومخنف جیسا متعصب رافضی ہے، تو یہ روایت ایک صاف ستھری تحقیق کے معیارپر ہرگز نہیں اترتی اور نہ ان دوسری روایات کا سامنا کرسکتی ہے، جو ان معزز ہستیوں کو نفس پرستی سے پاک صاف ظاہر کرتی ہے مثلاً : ٭ مسند احمد میں حبیب بن ابی ثابت کی سند سے ثابت ہے کہ انھوں نے کہا: میں علی بن ابی طالب کے ایک آدمی یعنی ابووائل کے پاس گیا، تو وہ بیان کرنے لگے کہ ہم جنگ صفین میں تھے، جب اہل شام تیزی سے قتل کیے
Flag Counter